کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 38
اجلہ محدثین رحمہم اللہ کی تنقید ایسی نہیں جو مناظرانہ احتمالات کے نذر کردی جائے حافظ عبد العظیم منذری مختصر ، سنن ابی داود ص۴، جلد ۲ میں اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں۔
اخرجہ النسائی وابن ملحۃ ولہ علۃ دقیقۃ اشارا لیھا البخاری وغیرہ قد جمعت طرقہ فی جزء ۱ھ
۱۔جہاں تک ان اللہ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیاء کا تعلق ہے وہ صرف تین سندوں سے مروی ہے اور تینوں مخدوش ہیں۔
حدیث نمبر ابی المدرواء پر امام بخاری اور امام ابو حاتم رحمہ اللہ جیسے بالغ نظر ائمہ حدیث کی جرح کو نظر انداز کرنا بہت شکل ہے۔
۲۔سنن ابن ماجہ کی سند کا حال علامہ سندھی کے کلام سے معلوم کرلیجئے ایک روایت (۳) طبرانی کے حوالے سے حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے ذکر کی مگر ساتھ حافظ عراقی سے نقل کردیا ہے۔لایصع القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع ص۱۱۹(
اسی طرح انہوں نے الترغیب والتر ہیب (ص۱۲۹ جلد اول مصری) میں فرمایا ہے اس "
علۃ وقیقہ" کی وضاحت علامہ تقی سبکی رحمہ اللہ اور حافظ سخاوی نے کردی ہےسبکی لکھتے ہیں:
وعلتہ ان حسین ابن علی الجعفی لم یسمع من عبد الرحمٰن بن یزید بن جابروانما سمع من عبد الرحمان بن یزید من تملیم وھو ضعیف ۔ فلما حدث بہ الجعفی غلط فی اسم الجد فقال ابن جابر (شفاء السقام ص۴۷(
اسی کے قریب قریب حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھ کر فرماتے ہیں
ولھٰذا قال ابو حاتم ان الحدیث منکر )القول البدیعص۱۱۹(
امام بخاری رحمہ اللہ کا وہ اشارہ التاریخ الکبیر اور التاریخ الصغیر میں ہے۔
اول الذکر میں بہ ذیل ترجمہ عبد الرحمان بن یزید بن تمیم لکھتے ہیں۔
یقال ھوالذی روی عنہ اھل الکوفۃ ابو اسامۃ وحسین فقالو ا عبد الرحمان بن یزید بن جابر )التاریخ الکبیر ص۳۶۵ جلد ۳ قسم اول)۔
اور التاریخ الصغیر (ص۱۷۹) میں فرماتے ہیں۔
وما اھل الکوفۃ فرد واعن عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر ابن یزید بن تملیم لیس بابن جابر وابن تمیم منکر الحدیث ۱۔
حافظ ابو حاتم کا ارشاد ان کے صاحبزادے حافظ عبد الرحمٰن نے نقل کیا ہے سمعت ابی یقول عبد الرحمان بن جابر لااعلم احدًا من اھل العراق یعدث عنہ والذی عندی ان الذی یروی عنہ ابوا سامۃ وحسین الجعفی واحد وھو عبد الرحمٰن بن یزید بن تملیم پھر اس علت کو بنیاد بنا کر زیر بحث روایت نقل کیا اور لکھا ہے۔