کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 35
جرح کی تصدیق فرمادی ہے۔ حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بھی اس واھی الحدیث اور متروک الحدیث فرمایا ہے(تاریخ بغداد ص۴۰۵ جلد۷) باقی رہا شوکانی کا تحفہ الذاکرین میں حدیث رد اللہ علی روحی کی تشریح میں یہ لکھنا لانہ صلی اللہ علیہ وسلم حی فی قبر وروحہ لاتفارق لماصح ان لانبیاء احیاء فی قبور ھم ط
توسابق مفصل جرح کے موجوود ہوتے "صح" سے مصطلح صحت مراد لینا تو مشکل ہے یہ صح بمعنی ہی ہوسکتا ہے ۔ جب تک حدیث پر وضع کا حکم یقینی نہ ہو۔محدثین کے نزدیک "ثبت" سے اس کی تعبیر ہوسکتی ہے نیل الاوطار میں حافظ شوکانی نے یہی لفظ اختیار فرمایا ہے۔وقدثبت فی الحدیث ان الانبیاء احیاء فی قبور ھم(ص۳۰۵،جلد۳) ۔ ایسی احادیث کا تذکرہ مواعظ اور فضائل کی مجالس میں تو کیا جاسکتا ہے لیکن عقیدہ کی بنیاد اس پر نہیں رکھی جاسکتی اہل حدیث اور ائمہ فن کے نزدیک اعتقاد کے لیے خبر واحد صحیح ہونی چاہیئے۔ کما ذکرہ ابن القیم فی الصواعق المرسہ۔اس حدیث کے متعلق ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔وحدیث ذکر حیاتھم بقبورھم لما یصح وظاھر النکرانفانظر الی الاسناد تعرف حالہ ان کنت ذاعلم بھذا الشانھذا ونحن لقو لھم احیاء لکن عندنا کحیات ذی الابدانوالتراب تحتھم وفوق روسھم وعن الشمائل ثم عن ایمانمثل الذی قد قلتمو ھا معاذنا باللہ من انک ومن بھتانانبیاء کی حیات فی القبور جس حدیث میں مذکور ہے اس کی سند صحیح نہیں اہل فن کو اس کی سند پر غور کرنا چاہیئے اس کے باوجود ہم یقین رکھتے ہیں کہ ان کے مبارک اجسام کے دائیں بائیں نیچے اوپر مٹی موجود ہے اور جس زندگی کے تم قائل ہو اس جھوٹ اور بہتان سے خدا کی پناہ"