کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 34
الجھۃ وان کانو امواز مین جھۃ خروج الروح من الجساد ھم ۔ اھ(فتح البیان ص۲۴ جلد ۱( "شہداء برزخ میں زندہ ہیں ان کی روحیں جنت میں جاتی ہیں گو روح کا تعلق جسم سے ٹوٹ چکا ہے"
ص ۲۰۵ میں فرماتے ہیں۔
روح جوہر قائم بالذات بدن سے حسی طور پر مغایر ہے جمہور صحابہ اور تابعین کے نزدیک موت کے بعد بھی اس کا ادراک باقی رہتا ہے کتاب و سنت کا یہی منشا ہے۔"
درسیات کے مشہور ملاجیون (صاحب نور الانوار) نے التفسیرات الاحمدیہ(ص ۲۹-۴۱ طبع کریمی بمبئی) میں حیات شہداء پر طویل بحث کے سلسلے میں اسے برزخی ہی قرار دیا ہے۔
پیش کردہ احادیث پر ایک نظر:
حیات الانبیاء بیہقی کے حوالہ سے اس مسئلہ میں دس میں سے کوئی استدلال کے قابل نہیں، پھر حیات دنیوی کا ذکر کسی میں بھی نہیں ۔ احادیث کے نام کی اہمیت اور اسلام میں سنت کے مقام کی رفعت کے پیش نظر اس کے متعلق اختصار سےذکر کرنا ضروری معلوم ہوا۔ نامہ نگار کا تعلق دیوبند ایسی علمی درس گاہ سے ہے اس لیے بعض اہم احادیث کو جرح وتوثیق کے لحاظ سے یہاں جانچا جاتا ہے۔
حدیث نمبر۱۔
النبیاء احیاء فی قبور ھم یصلون)بیہقی کا رسالہ خصائص کبریٰ انباہ(
تحقیق
اس حدیث کی سند میں حسن بن قیتبہ خزاعی ہے جس کے متعلق ذہبی نے میزان العتدال میں ابن عدی کا قول لا باس بہ ذکر کر کے اپنی اور دوسرے کی رائے ذکر فرمائی ۔
قلت بل ھو ھالک قال الدار قطنی فی روایۃ البرقانی متروک الحدیث قال ابو حاتم ضعیف قال الازدی واھی الحدیث قال العقیلی کثیرالوھم ۱ھ(ص۲۴۱،ج۱) یعنی ائمہ جرح تعدیل کی نظر میں یہ ھالک، متروک الحدیث، ضعیف واھی الحدیث و اکثر الوھم ہے۔"
حافظ ابن حجر نے لسان المیزان ص ۲۴۶ جلد۲ میں ذہبی کی پوری عبارت نقل فرماکر اس