کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 32
یعنی حیات برزخی سب کے لیے ثابت ہے شہید اور دوسرے سب اس میں شامل ہیں ارواح قائم بالذات ہیں (مذہب اہل سنت) اس محسوسی دنیوی بدن سے مغایر ہیں لیکن برزخی جسم سے تعلق میں کوئی مانع نہیں یہ دنیوی کثیف بدن سے مختلف ہے ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:
"وان ارواح الشھد اء یثبت لھا ھذا التعلق علی وجہ یمتازون بہ عمن عدھم مافی اصل التعلق اوفی نفس الحیوۃ بناء علی انھا من المسکک لا المتواطی۱ھ"
شہداء کی ارواح کا یہ تعلق باقی اموات سے امتیازی ہے یہ امتیاز روح کے تعلق میں ہو یا زندگی ہی کلی مشکک ہو!"
دنیوی جسم کے متعلق فرماتے ہیں کہ خدا تعالی ٰ کی قدرت سے یہ چنداں مستبعد نہیں لیکن اس سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ دنیوی جسم کے ساتھ زندگی سے کمزور اعتقاد لوگوں کو شکوک وشبہات میں مبتلا کرنے اور ایک سفاہت پر یقین دلانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ برزخی زندگی کے قائل ہیں اور اسی زندگی میں شہداء اور عام اموات کو شریک سمجھتے ہیں لیکن اس زندگی میں تواطر کی بجائے تشکیک سمجھتے ہیں تاکہ شہداء اور باقی اموات میں امتیاز رہے۔ ان کے اس مفصل ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ائمہ سنت سے ان کے زمانہ ۱۳۷۰ھ تک دنیوی زندگی کا کوئی بھی قائل نہیں، دنیوی جسم کے ساتھ تعلق کے جو لوگ قائل ہیں وہ بھی تعلق کی نوعیت برزخی سمجھتے ہیں معلوم نہیں اکابر دیوبند میں یہ غلط عقیدہ کہاں سے آگیا ہے۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ آخر میں فرماتے ہیں:
وما یحکی من مشاھدۃ بعض الشھداء الذین قتلوامنہ مأت سنین وانھم الی الیوم تشخب جروحھم وما اذا رفعت العصابۃ عنھا فذلک مما رواہ ھین بن بیان وما ھو الا حدیث طرفۃ وکلام یشھد علی مصدقیہ تقدیم السخافۃ۔۱ھ)ص ۲۲ ،پ۲ بقرہ(