کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 31
شاہ صاحب کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ شہداء کی زندگی اس عنصر ی دنیا کی زندگی نہیں بلکہ وہ عالم برزخ اور دار الجزا کی زندگی ہے۔ معلوم نہیں ہمارے ان اکابر کو دنیوی زندگی کہاں سے سمجھ میں آئی اور دنیوی زندگی سے ان کو کیوں محبت ہے دنیوی زندگی کو ترجیح کفار کا خیال تھا۔ ان ھی الاحیاتنا الدنیا(جو کچھ ہے دنیا ہی دنیا ہے) انبیاء اور شہداء کے تو تصور میں بھی ایسا نہیں آسکتا ۔ابن القیم رحمہ اللہ کا تجزیہ کس قدر درست ہے۔ واللہ لا الرحمان اثبتم ولا ارواحکم یا مدعی العرفان عطلتم الابدان من ارواحھا والعرش عطلتم من الرحمن
جیسا کہ گزرا یہ عقیدہ ابن قیم کی تحقیق کے مطابق فرقہ معطلہ کا تھا عقائد کے بارے میں یہ لوگ اپنے وقت کے بدعتی تھے۔ اہل سنت کا عقیدہ شہداء اور انبیاء کی حیاتِ دنیوی کا نہیں حیات برزخی ہے جس کی صراحت شاہ صاحب نے فرمائی ہے۔
علامہ آلوسی حنفی کی تصریحات:
شیخ شہاب الدین ابو الفضل السید محمد آلوسی بغدادی نے ۱۲۷۰ھ جو اپنے وقت کے بہت بڑے محقق عراق کے مفتی اور مسلکاً حنفی ہیں روح المعانی (پارہ ۲ بقرہ) میں اس موضوع پر کسی قدر تفصیل سے لکھا ہے۔ انہوں نے حیات ِ شہداء کے متعلق پانچ مسالک کاذکر فرمایا اول جسمانی، دوسری روحانی، باقی مسالک باطل ہیں ، پہلے مسلک کے متعلق فرماتے ہیں ۔ یہ راجح ہے ابن عباس، قتادہ ، مجاہد ،حسن عمرہ بن عبید ، واصل بن عطا، جبائی رمانی اور مفسرین کی ایک جماعت نے یہی پسند کیا ہے۔
جسم کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے بعض اسی جسم کے قائل ہیں جس پر شہادت وارد ہوئی بعض کہتے ہیں کہ اس حیات کا تعلق پرندوں سے ہے جن کا رنگ سبزہوگا ۔ ان کے آشیا نے قندیلیں ہوں گی تیسرا مسلک یہ ہے کہ دنیوی جسم سے ملتا جلتا جسم ان کو عطا ہوگا اس کے بعد فرماتے ہیں :
"عندی ان الحیوٰۃ ثابتۃ لکل من یموت من شھید وغیرہ وان الارواح وان کانت جواھر قائمۃ بانفسھا مغایرۃ لما یحس بہ منا لبدن لکن لا من تعلقھا ببدن برزخی مغایر لھذا البدن الکثیف)ص ۲۱ ،پ۲(