کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 30
کیونکہ شہداء کی زندگی جب عند اللہ ہے تو دنیوی رزق وہاں کیسے جاسکتا ہے اگر معتاد برزخی مراد ہے تو حیات دنیوی کے لیے یہ رزق دلیل نہیں بن سکے گا۔ رزق سے استدلال بے معنی ہے:
ویسے رزق سے زندگی پر استدلال بالکل بے معنی اور غلط ہے رزق تو انبیاء اور شہداء کے علاوہ برزخ میں باقی ایماندار مرنے والوں کو بھی ملتا ہے۔ ارشاد ربانی پر غور فرمائیں:
[وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ 58؀]( سورہ الحج:58(
آیت میں موت اور قتل دونوں پر رزق کا وعدہ فرمایا گیا ہے پس جب رزق طبعی موت سے مرنے والوں کو بھی ملتا ہے تورزق سے زندگی پر استدلال صحیح نہ رہا آپ حضرات کے نظریات سے لازم آتا ہے کہ کوئی بھی مرتا نہیں یوں ہی موت کا لفظ لغت میں رکھ لیا گیا ہے۔ شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کی تحقیق:
شاہ عبد العزیزرحمہ اللہ فرماتے ہیں " آرے ارواح شہیدان از تمتعات ایں جہاں وتکلیفات دنیا دور افتادہ اند اماتمتعات جسدانہ بے تکلفات وارند، اصلاً روئے غم والم نے بینند بس درحقیقت ایشاں اتم ازحیات دنیوی است"(تفسیر عزیزی ،ص۴۷۱(
"یعنی شہداء کی روحیں اس دنیا کے فوائد اور تکلیفات سے تو بہت دور جاچکی ہیں لیکن عالم برزخ میں ان کو دوسرے اجسام (سبز پرندوغیرہ) عطا ہوتے ہیں ان سے وہ تکلف مستفید ہوتے ہیں انہیں فکر اور غم نہیں ہوتا ان کی یہ زندگی دنیا کی زندگی سے زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔" دوسرے مقام پر فرماتے ہیں۔
"ایں نوع تعلق کہ ارواح شہداء رابا جانوراں پرندہ بہم میر سید ہم بیرون ازعالم عناصر است"(ص۴۷۱ (
شہداء کا جن پرندوں سے تعلق ہے یہ بھی اس عنصری دنیا سے بالکل الگ ہیں۔ ص ۴۷۲
"پس حیات شہداء در عالم برزخ حیاتِ جزائی ست نہ حیات ابتدائی "۱ھ
برزخ میں شہداء کی زندگی جزاء اعمال کے لیے ہے ابتدائی اور اعمال کی زندگی نہیں۔