کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 22
عقیدہ ہے(مگر جو اہل سنت ہیں ان کی کتابوں میں نہیں) اسی لیے ان کا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔ ازواج کو نکاح ثانی کی اجازت نہیں لیکن شہداء کی زندگی اس کے خلاف ہے ان کا ترکہ بھی تقسیم ہوتا ہے اور بیویاں بھی نکاح کر سکتی ہیں" اور اس قسم کی صراحت خان صاحب نے فتاوی رضویہ ص٦١١ میں فرمائی ہے دیوبندیوں کی بریلویوں سے ہم نوائی:
مولانا حسین احمد صاحب مرحوم مکاتیب (ص130 جلد۱) میں فرماتے ہیں:
آپ کی حیات نہ صرف روحانی ہے جو کہ عام شہداء کو حاصل ہے بلکہ جسمانی بھی اور ازقبیل حیات دنیوی بلکہ بہت وجوہ سے اس سے قوی تر سنا ہے مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض اکابر دیوبندی بھی اس قسم کی حیات کے قائل تھے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی۱۰۵۲ء نے بھی مدارج النبوت میں حیات دنیوی کا اعتراف کیا ہے۔ حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے سبکی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی اسی قسم کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ لیکن عام فقہا اور محدثین احناف، شوافع ، موالک ، حنابلہ رحمہم اللہ سے اس قسم کی صراحت منقول نہیں ہوئی۔ حضرات دیوبند سے بھی حضرت مولانا حسین علی مرحوم(واح بچھراں) اور ان کے تلامذہ مولوی نصیر الدین صاحب وغیرہ بھی صراحۃ اس کے خلاف ہیں۔
غور وفکر کے لیے چند گذارشات:
۱۔ یہ ایسا خیال ہے کہ امت میں گنتی کے دس آدمی بھی نہیں جو اس کی صراحت کرتے ہوں لہذا اسے اجتماعی عقیدہ کہنا اہل علم کے لیےمناسب نہیں۔
۲۔ اسے متواتر کہنا بھی صحیح نہیں کیونکہ تواتر کی کوئی شرط بھی اس میں نہیں پائی جاتی کم از کم تواتر میں حواس کا ادراک لازمی ہونا چاہیئے قرآن جس زندگی کو خارج از شعور فرمارہا ہے وہاں حواس اور اس کے استعمال اور ادراک کی گنجائش کہاں ہوسکتی ہے۔
۳۔ جس اصلاحی تحریک کےساتھ تعلق کی بنا پر آپ حضرات کو وہابیت کا سرخاب لگایا گیا اس کے مزاج میں تو سماع موتی کی بھی گنجائش معلوم نہیں ہوتی ، حیات دنیوی اس میں کہاں سجے گی مرحوم مولانا حسین علی صاحب (واح بچھراں) اور پوری جماعت اہل حدیث نے کتاب وسنت اور مقدس تحریک کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ان"الہامی" اوہام کا انکار کردیا ہے۔
وکانت دلیلی فی صعود من الطوی
فلما توا فینا ثلٰث فزلّت