کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 18
بلکہ انہیں آلات حرب سے گہرا تعارف ہو! خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را۔
حضرت شہیدؒ نے تحریک کے مقاصد کی اشاعت کے لیے شہادت سے پہلے تقویۃ الایمان لکھی اور ساتھیوں کے مشورہ کے بعد اسے شائع فرمایا تزکر الاخوان کا مسودہ لکھا معترضین کے جوابات لکھے اور یہ سب کچھ تحریک کی تائید اور اس کے مقاصد کی روشنی میں تھا، آج اگر اکابر دیوبند اور علماء اہل حدیث کوئی ایسی چیزیں فرمائیں جوتحریک کے مزاج سے مصادم ہوں تو اُسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
ستیزہ کار رہا ہے از ل سے تا امروز
تیسرا ہنگامہ:
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک نے احیائے سنت اور تجدید ماثردین کی راہ میں جہاں عظیم الشان قربانیاں پیش کیں وہاں ایک تحریک اس کے بالمقابل شروع ہوئی جس نے بدعات کے جواز میں دلائل کی تلاش کی اور عوام کی بدعملی کے لیے وجہ جواز پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بدعت ہر زمانہ میں رہی ، حالات کے ماتحت اس کی مختلف صورتیں بنتی اور بگڑتی رہیں بدعت کا وجود کبھی منظم طور پر موجود رہا، مغل حکومت میں بدعت عام تھی لیکن بظاہر غیر منظم اسے ترجمانی کے لیے علماء کی باقاعدہ خدمات میسّر نہ آسکیں۔
مغل زوال کے بعد سکھ ، مرہٹے ، انگریز ، اہل توحید سب نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی موحدین کے لشکر کی سیاسی شکست نے اہل بدعت پر سکتہ طاری کردیا، لیکن باطل نے اقتدار کی زمام سنبھال لی، ۱۸۵۷ء کے معرکہ حریت میں اسے محسوس ہوا کہ علماء کی خدمات کے بغیر اقتدار پر قبضہ کرنا اور مسلمانوں کو مطمئن کرنا مشکل ہے جویندہ یا بندہ اسے کچھ اہل علم میسر آگئے، جن سے انگریز کا کام چل نکلا تحریک توحید کی سرپرستی رائے بریلی کے ایک فقیر نے فرمائی تھی، شرک وبدعت کی سرپرستی بانس بریلی کے ایک خاندان کے حصہ میں آئی ، مولوی احمد رضا خاں صاحب ۱۶۷۴ھ میں پیدا ہوئے خاندان میں پڑھنے پڑھانے کا چرچا موجود تھاسن رشد کو پہنچے بقول موصوف ان کے والد مولانا نقی علی خان نے اپنے ہونہار فرزند کو۱۶۸۶ء میں مسند افتاء پر بٹھا دیا خان صاحب نے مسند سنبھالتے ہی بدعت کی تائید اور شرک کی حمایت شروع فرمائی۔
شرک کو مدلل اور اہل بدعت کو منظم کرنیکے لیے موصوف نے اپنے اوقات عزیز وقف