کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 17
ہے۔ حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ انتہائی کوشش کے باوجود آیت انّک میت وانھم مییّتون)سورۃ ذمر) اور حدیث فیرد اللہ علی روحی ۔ اور حدیث الانبیاء احیاء فی قبور ھم یصلون۔ میں تعارض نہیں اٹھا سکے بلکہ حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تو حاطب دلیل کی طرح ایک غیر موثق ذخیرہ جمع فرمادیا ہے جس سے حضرات قبوریین کو مدد ملے گی اور سادہ دل اہل توحید کے دل شبہات سے لبریز ہوں گےقریباً یہی حال حافظ ابن القیم کی کتاب الروح کا ہے۔ فحول اہلحدیث اور ماہرین حال کو تو کوئی خطرہ نہیں لیکن عوام کے لیے یہ مورد مزلئہ اقدام ہے۔
صورت تصفیہ
اس لیے تصفیہ کی صحیح صورت یہی ہوسکتی ہے کہ تحریک کے مزاج کی روشنی میں شاہ صاحب سے تعلق رکھنے والے اور اس خاندان کے عقیدت مند مسلّم سمجھنے کی کوشش کریں، اگر اکابر ہی کی اقتداء اور تقلید سے اس مسئلہ کوسمجھنا ہے، کتاب و سنت اور بحث و استدلال سے صرف نظر ہی کا فیصلہ فرما لیا گیا ہے تو پھر اکابر کے اکابر اور بانیان تحریک کے نظریات سے کیوں استفادہ نہ کیا جائے؟ مولانا حسین احمد مرحوم اور حضرت مولانا نانوتوی مرحوم کی رائے فیصلہ کن ہے تو بانیان تحریک اور تحریک کے مدارج کو حکم کیوں نہ مان لیا جائے؟شاہ شہید رحمۃ اللہ علیہ
مولانا شاہ محمداسماعیل رحمہ اللہ کی شہادت اور عبقریت نے پوری تحریک کو نظریات اور تصوّرات کی دنیا سے عمل کے میدان میں لاکھڑا کردیا۔ اشارات اور تعریضات کو تصریحات سے بدلا، جو کچھ کتابوں کے اوراق کی زینت تھا اسے بالا کوٹ کے میدان میں علی راس التمام رکھ دیا گیا ، سکھوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتایا کہ حق وصداقت ، ایثار وقربانی کے جوہر مناظرات اور مکالمات ہی سے ظاہر نہیں ہوتے ان کے ظہور کابہت بڑا ذریعہ تلوار اور میدان جنگ ہی ہے قلم کی دوزبانوں اور دوات کی روشنائی سے جوکچھ کیا جاسکتا تھا، اس سے کہیں زیادہ قوّت گویائی خون کے چھینٹوں میں ہے اس لیے گلرنگ قطرات ہزاروں زبانوں پر تالے ڈال سکتے ہیں اور وہ برسوں گنگ ہوسکتی ہیں اور سینکڑوں دلوں سے دلوں سے تالے اتار کر انہیں فہم وفراست عطا کی جاسکتی ہے لیکن یہ کام اصحاب التدریس اور ارباب التصانیف کا نہیں یہ وہ لوگ کریں گے جو کاغذاور دوات قلم اور روشنائی کے علاوہ سیف وسنان سے نہ صرف واقف ہوں