کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 16
فقہی فروع میں مسلکی جمود شاہ صاحب کو سخت ناپسند ہے اسی طرح وہ ظاہریت محض (امام داود ظاہری کا مسلک) کو بھی نا پسند فرماتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ اگر حدیث کی صحت آئمہ حدیث کی شہادت سے ثابت ہوا اور اہل علم نے اس پر عمل بھی کیا ہوا اور اس پر صرف اس لیے عمل نہ کیا جائے کہ فلاں امام نے اس پر عمل نہیں کیا یہ ضلال بعید ہے(ص۲۰۹ جلد ۱ ص۲١١ جلد١(
اس قسم کی تصریحات شاہ صاحب کی باقی تصنیفات میں بھی بکثرت موجود ہیں میں نے یہ طویل سمع خراشی اس لیے کی ہے کہ اس پاکیزہ تحریک کامزاج معلوم ہوجائے تاکہ اس کے دوصدی کے اثرات کا صحیح اندازہ کیا جاسکے۔ان مقاصد کے خلاف ان بزرگوں کی تصانیف میں اگر کوئی حوالہ ملے تو اس کا ایسا مطلب نہ لیا جائے جو مقاصد تحریک کے خلاف ہوبلکہ وقتی مصالح پر محمول کیا جائے کیونکہ ان بزرگوں نے جن سنگلاخ حالات میں کام کیا ہے ان کے مصالح اور ان کے مقتضیات بدلتے رہتے ہیں، جن مشکلات میں ان حضرات کو کام کرنا پڑا ان مشکلات کا ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ شکر اللہ ماعلیھمشاہ صاحب کا مقام
اس تحریک میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسا برزخ ہیں کہ حضرت مجدّد اور ان کے ارشد تلامذہ کی علمی اور عملی مساعی سے شاہ صاحب نے پورا پورا اثر لیا اور شاہ صاحب نے اپنے بناؤ واخفاد اور تلامذہ کو ان برکات سے علمی اور عملی استفادہ کا موقع دیا ہے اس لیے میں نے شاہ صاحب کے ارشاد کو کسی قدر تفصیل سے عرض کرنا مناسب سمجھا ۔
مسئلہ حیاتِ نبوی:نیز متنازعہ فیہ مسئلہ میں مجلہ"دارلعلوم" کے مضمون نگار حضرات نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں حیات دنیوی کی صراحت شیخ عبدالحق صاحب کے بعد صرف اکابر دیوبند ہی نے فرمائی ہے ہاں شاہ عبد الحق سے پہلے حافظ بیہقی رحمہ اللہ اور سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر مختلف رسائل لکھے ہیں، مگر افسوس موضوع صاف نہیں فرماسکے، ایسا معلوم ہوتا ہے ان حضرات نے اس قسم کا ذخیرہ جمع فرمایا ہے جس کے متعلق ان کے ذہن بھی صاف نہیں کہ وہ حیات ثابت فرمانا چاہتے ہیں لیکن اس کی نوع متعین نہیں فرماتے ۔ حافظ سیوطی رحمہ اللہ کے رسالہ میں سبکی کے سوا حیات دنیوی کا کسی نے ذکر نہیں کیا بلکہ حافظ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان بعض مواقع میں حیات ِ برزخی کی طرف معلوم ہوتا