کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 12
کے میدان میں اتری اور دوپہر سے پہلے صدقات کے نہ مٹنے والے نشان دنیا کی پیشانی پر ثبت کرنے کے بعد ہمیشہ کی نیند سو گئی۔ ولاتقولو المن یقتل فی سبیل للہ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون ۔
تحریک کا مزاج:
پیش نظر مسئلہ کے متعلق بحث ونظر سے پہلے ضروری ہے کہ اس تحریک کا مزاج سمجھ لیا جائے۔ حضرت مجدّد رحمۃ اللہ علیہ سے شاہ ولی اللہ کے ابناء کرام تک یہ تمام مصلحین عظام ظاہری اعمال میں عمومًا حنفی فقہ کے پابند تھے لیکن ذہنی طور پر تین مقاصد کی تکمیل ان کا مطمع نظرتھا۔1۔ تصوف کے غلو آمیز مزاج میں اعتدال2۔ فقہی اور اعتقادی جمود کی اصلاح اور اشعریت اور ماتریدیت کے ساتھ فقہ العراق نے تحقیق و استنباط کی راہ میں جو مشکلات پیدا کی تھیں انہیں دور کیا جائے اور نظر وفکر کی روانی میں جمود سکون سے جو رکاوٹ نمایاں ہوچکی تھی اسے یکسر اٹھا دیا جائے۔ قرآن وسنت اورا ٓئمہ سلف کے معیار پر نظروفکر کو آزادی بخشی جائے۔3۔ بے عملی نے چند بدعات کو جوسنت کا نعم البدل تصور کرلیا تھا اور بہت بت پرست قوموں کے پڑوس اور مغل باشادہوں کی عیاشیوں نے ان بدعات کو نجات کا آخری سہارا قرار دے لیا تھا۔ اس ساری صورت حال کو بدل کر اس کی جگہ سیدھے سادے اسلام کو دے دی جائے۔ ترکتکم علی ملۃ بلیضاء لیلھا کنھارھا۔ میں آپ کو اس میں تفصیل میں نہیں لے جاؤں گا نہ ہی اپنی تائید میں ان کی تصانیف سے اقتباسات پیش کرکے آپ کا وقت ضائع کروں گا صرف چند امور کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مجدّد رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوبات میں بدعات کے خلاف کس قدر کڑی تنقید فرمائی ہے۔ بدعت کی حفاظت کے لیے حسنہ اور سیئہ کی تقسیم اہل بدعت کو قلعہ کا کام دے رہی تھی اور عز بن عبد السلام نے جب سے اس تقسیم کی نشاندہی کی تھی اس کے بعد سے ہندوستان میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ ہی تھے جنہوں نے یہ قلعہ پاش پاش کرکے رکھ دیا۔سجدہ تعظیم کے خلاف گوالیار کے قلعہ میں تین سال قید گوارا فرمائی۔ لیکن سجدہ تعظیم کی گندگی سے اپنی مقدس پیشانی کو آلودہ نہیں فرمائی ۔ فقہی مسائل میں حضرت کے کچھ اختیارات تھے۔ دوسرے علماء کی مخالفت کے باوجود حضرت مجدد اپنی الگ راہ پر قائم رہے حنفی مسلک کے ساتھ وابستگی