کتاب: مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - صفحہ 11
اور فعال گروہ اطراف عالم میں نمودار ہوئے فتح وشکست کے اثرات اور نتائج گو مختلف ہیں لیکن مقام شکر ہے کہ ان حضرات کے صبر وعزیمت نے دنیا میں گہرے نقوش اور نہ مٹنے والے آثار آنے والوں کے لیے چھوڑے ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کا احسان ہے۔ وفی ذٰلک فلتینا فس المتنا فسون۔ط۔ نجد میں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ اور سعودی خاندان، ایران، افغانستان ، مصر اور شام میں جمال الدین افغانی رحمتہ اللہ اور ان کے تلامذہ ہندوستان میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان اور تلامذہ، ان تمام مصلحین نے اپنے ماحول کے مطابق اپنے حلقوں میں کام کیا۔ اور اپنی مساعی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی ۔ محمد بن عبد اوہاب رحمہ اللہ علمی اور سیاسی طور پر کامیاب ہوئے ۔ جمال الدین افغانی رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ ہندوستان میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اورحضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کا خاندان اور تلامذہ ان تمام مصلحین نے اپنے ماحول کے مطابق اپنے حلقوں میں کام کیا۔ اور اپنی مساعی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی۔ محمد بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ علمی اور سیاسی طور پرکامیاب ہوئے ۔ جمال الدین افغانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے قابل و مخلص دماغوں کو تربیت دی جن کی وجہ سے مصروشام علم و اصلاح کا گہوارہ قرار پایا۔ اور ان کے فیوض نے ذہنوں کی کا یا پلٹ دی۔ ان حضرات کی کوششوں نے یورپ کے مادی منصوبوں کے سامنے ایسی دیواریں کھڑی کر دیں جن کو عبور کرنا ایسی طاقتوں کے لیے آسان نہیں مصروشام کی آزادی اور دینی تحریکات میں ان مساعی کو بہت بڑا دخل ہے جن کا آغاز مجدد وقت شیخ جمال الدین افغانی رحمۃ اللہ علیہ اور سید عبدہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اور اس کی تکمیل میں سید رشید رضا، علامہ مراغی سعدزاغلول اور امیر شکیب ارسلان ایسے بیدار مغزلوگوں نے شب دروز محنت فرمائی اور کافی حدتک ان کو کامیابی ہوئی۔ ہندوستان کی تحریک تجدید:
ہندوستان کی تحریک احیاوتجدید جس کی ابتداء حضرت سید احمد سرہندی نے فرمائی اور اس کی تکمیل شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقاء نے فرمائی۔ ابتدا میں علمی اور اصلاحی تھی۔ علماء سوء اور انگریز کے منحوس وفاق نے اسے مجبورًا سیاست میں دھکیل دیا سکھوں کی حماقت نے اتقیاء کی اس جماعت کو مجبور کردیا کہ وہ جنت کی آگ میں کودیں اور اپنی قیمتی زندگیاں حق کی راہ میں قربان کریں پھر گمراہ کن فتووں کی سیاہی نے ملت کے چہرے کو اس قدر بدنما کردیا تھا کہ اسے دھونے کے لیے شہادت کے خون کے علاوہ پانی کے تمام ذخیرے بیکار ہوچکے تھے۔ وہابیت کی تہمت مستعار نے ذہن ماؤف کردیے تھے، الحاد کا گرد اِن پر اس قدر جم چکا تھا کہ اسے صاف کرنے کے لیےصرف شہداء کا خون ہی کار آمد ہوسکتا تھا۔
چنانچہ مئی ۱۸۳۱ء کی صبح کو یہ مقدس جماعت انتہائی کوشش اور ممکن تیاری کے ساتھ بالا کوٹ