کتاب: مشروع اور ممنوع وسیلہ کی حقیقت - صفحہ 40
تاکہ وہ لوگوں کو بہکائے اور ان کو کفر وضلال کے جال میں اس طرح پھانس دے کہ لوگ اس مکر کو سمجھ پائیں یا نہ سمجھ یا نہ سمجھ پائیں۔(لیکن اس کامکر کام کرجائے۔) اور روایات اس پر متفق ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں مشرکین بتوں کے پاس آتے تھے اور ان کو پکارتے تھے۔اس وقت وہ کچھ آوازسنتے تھے تو سمجھتے تھے کہ یہی بت جو ان کے خود ساختہ معبود ہیں‘ان سے بات کررہے ہیں اور ان کی پکار کا جواب دے رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ نہیں ہوتی تھی بلکہ شیطان لعین ان کو گمراہ کرنے اورا نہیں ان کے باطل عقیدہ میں مزید غرق کرنے کے لئے یہ حرکتیں کیا کرتا تھا۔ اس تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس بات کو سمجھ پائیں کہ تجربے اور روایات اعمال دینیہ کی مشروعیت جاں نے کا صحیح وسیلہ نہیں ہیں ‘بلکہ اس کے لئے واحد مقبول وسیلہ صرف یہ ہے کہ اس شریعت کوفیصلہ کن بنایا جائے جوکتاب وسُنّت میں نمائندہ حیثیت رکھتی ہے ‘اس کے سوا کچھ نہیں۔ اس سلسلے کی سب سے اہم بات جس میں اکثر لوگ خلط ملط کرتے ہیں وہ ہے طرق صوفیہ میں سے کسی طریقہ کے ذریعہ کسی غیب داں کے پاس جانا ‘جیسے کاہنوں ‘نجومیوں ‘منجمین ‘جادوگروں ‘اور شعبدہ بازوں کے پاس جانا ‘تم کو معلوم ہوگا کہ لوگ ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ لوگ غیب جانتے ہیں ‘کیونکہ انہوں نے ان کو کبھی بعض ایسی غیبی خبریں بتائی ہیں جو ان کے بتانے کے مطابق صحیح ثابت ہوئی ہیں۔بس اسی سے وہ ان کے پاس جانا اور اِن پر اعتقاد رکھنا جائز اور مباح سمجھنے لگتے