کتاب: مشروع اور ممنوع وسیلہ کی حقیقت - صفحہ 26
اِلٰی رَبِّھِمْ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَ ابَہٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا(الاسراء:۵۷) وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون قریب ہے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بے شک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کے قابل ہے۔‘‘ پہلی آیت کی تفسیر میں امام المفسرین الحافظ ابن جریر رحمۃ اﷲعلیہ نے فرمایا: وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الوَسِیْلَۃ یَعْنِی اُطْلِبُوا الْقُرْبَۃَ اِلَیْہِ بِالْعَمَلِ بِمَا یَرْضَاہٗ ’’اﷲکی طرف عمل کے ذریعہ قربت حاصل کرو جس کووہ پسند کرتا ہے۔‘‘ اور حافظ ابن کثیر رحمۃ اﷲعلیہ نے اس آیت میں وسیلہ کا معنی ’’قربت ‘‘کیا ہے اور یہی معنی مجاہد‘ابووائل‘حسن ‘عبداﷲبن کثیر ‘سدی اور ابن زید وغیرہ سے بھی نقل کیا ہے۔اور حافظ ابن کثیر نے عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہما سے نقل کیا ہے کہ اس آیت میں ’’وسیلہ‘‘کا معنی ’’قربت ‘‘ہے۔اور قتادہ کابھی قول نقل کیا ہے کہ اس آیت میں وسیلہ کا مطلب ہے کہ ’’اﷲکی اطاعت اور اس کے پسندیدہ عمل کے ذریعہ اﷲکا قرب حاصل کرو۔’’علامہ ابن کثیر اس کے بعد فرماتے ہیں کہ وسیلہ کا جو مفہوم ان ائمہ تفسیر نے بیان کیا ہے اس میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ‘اور وسیلہ وہی ہے جس کے ذریعہ حصول مقصود تک پہنچا جائے۔(تفسیر ابن کثیر:۲‘۵۲‘۵۳) رہی دوسری آیت تو صحابی جلیل القدر حضرت عبداﷲبن مسعود رضی اﷲعنہ نے اس کا سبب نزول بیان کرتے ہوئے آیت کے معنی کی توضیح فرمائی ہے کہ ’’یہ عرب کی ایک جماعت