کتاب: مشروع اور ممنوع وسیلہ کی حقیقت - صفحہ 24
وَسَّل۔کہا جاتا ہے جب آدمی کسی کی طرف رغبت کرے۔اور ’’واسل‘‘کہتے ہیں اﷲکی طرف رغبت کرنے والے کو۔لبید کہتا ہے ؎ اِرَی النَّاسَ لَا یَـــدْرُوْنَ مَـا قَــدْرُ اَمْــرِھِمْ بَـلٰـی کُــلُّ ذِیْ دِیْــنٍ اِلَـی اللّٰہ وَاسِـــل میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے کام کی قدر نہیں جانتےہاں بے شک ہر دیندار اللّٰہ کی طرف راغب ہے اور علامہ راغب اصفہانی نے ’’المفردات ‘‘میں کہا۔اَلْوَسِیْلَۃُ اَلتَّوَسُّلُ اِلَی الشَیْیٔ بِرَغْبَۃٍ(یعنی کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنا)اور وصیلہ سے خاص ہے کیونکہ وہ رغبت کے معنی کو شامل ہے۔اﷲکا ارشاد ہے وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ اور وسیلہ الی اللّٰہ کی حقیقت یہ ہے کہ ’’علم اور عبادت اورمکارم شریعت کی طلب کے ساتھ راہِ الٰہی کی رعایت کرنا۔‘‘ اور وسیلہ ‘قربت کی طرح ہے۔اور ’’واسل‘‘راغب الی اﷲکو کہتے ہیں ‘‘اور علامہ ابن جریر نے بھی اسی معنی کو نقل کیا ہے اور اس پر شاعر کا قول پیش کیا ہے ؎ اِذَا غَفَلَ الْوَاشُوْنَ عُدْنَا لَوَصْلَنَاوَعَادَ التَّصَافِی بَیْںنا والْوَسَائِلُ جب چغلی کھانے والے غافل ہوگئے توہم اپنے وصل کی طرف لوٹ پڑے اور ہمارے درمیان دوستی اور وسائل بھی لوٹے۔ اور وسیلہ کا ایک معنی یہاں اور بھی ہے اور وہ ہے ’’بادشاہ کے پاس مرتبہ اور درجہ قربت۔‘‘ جیسا کہ حدیث میں اس کو جنت کا سب سے اعلیٰ مقام کہا گیا ہے۔چنانچہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کا اِرشاد ہے۔’’جب تم مؤذن سے سنو توکہو جیسے مؤذن کہتا ہے پھر مجھ پر درود بھیجو۔جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا‘اﷲ