کتاب: مشروع اور ممنوع وسیلہ کی حقیقت - صفحہ 22
فَرِّجِ الْھَمَّ عَنَّا وَ عَنِ المَھُمُوْمِیْنَ اِللّٰہُمَّ قَدْ بَسَطَنَا اِلَیْکَ اَکْفَّ الضَّرَاعَۃِ،مُتَوَسِّلِیْنَ اِلَیْکَ بِصَاحِبٍ الْوَسِیْلَۃِ وَالشَّفَاعَۃِ اَنْ تَنْصُرَ الْاِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِیْنَ
ہم سے اور غمزدہ لوگوں سے غم کو دُور فرما۔اے اﷲہم نے تیری طرف عاجزی کا ہاتھ پھیلایا ہے وسیلہ اور شفاعت والے کو تیری بارگاہ میں وسیلہ بناکر تو اِسلام اور مسلمانوں کی مدد فرما۔وغیرہ وغیرہ‘‘
لوگ اسی کو وسیلہ کہتے ہیں اور دعوی بھی کرتے ہیں کہ یہی رائج اور مشروع ہے اور اس کے بارے میں بعض ایسی آیات اور احادیث بھی وارد ہیں جو اس کو ثابت اور مشروع کرتی ہیں بلکہ اسی وسیلہ کا حکم بھی دیتی ہیں اور ترغیب بھی۔
اور کچھ لوگوں نے تو اس وسیلہ کے مباح ہونے میں ایسا غلو کیا کہ اﷲکی بارگاہ میں اس کی بعض ایسی مخلوقات کا وسیلہ بھی جائز قرار دے دیا جن کی نہ کوئی حیثیت ہے نہ وقعت۔مثلاً اولیاء کی قبریں ‘ان قبروں پر لگی ہوئیں لوہے کی جالیاں ‘قبر کی مٹی ‘پتھر اور قبر کے قریب کا درخت۔اس خیال سے کہ ’’بڑے کا پڑوسی بھی بڑا ہوتا ہے‘‘۔اور صاحب قبر کے لئے اﷲکا اکرام قبر کو بھی پہنچتا ہے ‘جس کی وجہ سے قبر کا وسیلہ بھی اﷲکے پاس درست ہوجاتا ہے۔یہی نہیں بلکہ بعض متاخرین نے تو غیر اﷲسے استغاثہ کو بھی جائز قرار دے دیا اور دعویٰ یہ کیا کہ یہ بھی وسیلہ ہے ‘حالانکہ یہ خالص شرک ہے جو توحید کی بنیاد کی خلاف ہے۔
سوال یہ ہے کہ وسیلہ ہے کیا؟اسکے انواع کیاہیں؟اور اس