کتاب: مختصر مسائل و احکام حج و عمرہ اور قربانی و عیدین - صفحہ 57
حدیث سے ثابت نہیں ،لہٰذا عید کا خطبہ صرف ایک ہی مسنون ہے۔(ارواء الغلیل ۳؍۳۴۸) [209] عیدگاہ میں منبر لے جانا ثابت نہیں ۔(بخاری ومسلم)اورامام کاویسے ہی اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا سنّت ہے۔( ابن حبان وابن خذیمہ) نمازِ عید سے پہلے خطبہ دینے اور منبر پر بیٹھ کر خطبۂ عید کا آغازعہدِاموی میں مروان نے کیا تھا۔(بخاری ومسلم) [210] عید کا خطبہ سننا سنّت ہے۔ (بخاری ومسلم)اگر کسی عذر وضرورت کی بناء پر کوئی خطبہ سنے بغیر چلا جاتا ہے، تو اسکی گنجائش ہے۔ (ابوداؤد، نسائی،ابن ماجہ،دارقطنی،بیہقی،مستدرک حاکم، ابن خذیمہ،المنتقی لابن الجارود) نمازِ عید کی دوسری جماعت: [211] اگر کوئی عیدگاہ پہنچے اور نماز کی جماعت ختم ہوچکی ہوتو اسے اکیلے یا اسی کی طرح بعد میں آنے والے لوگوں کے ساتھ مل کر دوسری جماعت کروالینا چاہیئے اور یہ حکم مردوں کی طرح ہی عورتوں کیلئے بھی ہے۔(صحیح بخاری،باب اذافاتتہ العید یصلّی رکعتین) [212] ان دونوں رکعتوں کی دوسری جماعت والے بھی تکبیراتِ زوائد بھی کہیں گے۔(بخاری تعلیقاً بالجزم،بیہقی ومصنف ابن ابی شیبہ وفریابی موصولاً) [203] اسی طرح ہی اپنے اہل وعیال کے ساتھ مل کر بھی قضاءِ عید اپنے گھر میں بھی باجماعت پڑھی جاسکتی ہے۔(حوالہ جاتِ سابقہ) دوسرے دن نمازِ عید: [204] اگر رمضان کا تیسواں روزہ رکھ لیا گیا اور زوالِ آفتاب کے بعد ثقہ لوگوں نے بتایا کہ ہم نے رات چاند دیکھا تھا تو اُسی وقت سبھی روزہ کھول دیں اور اگلے دن نمازِ عید ادا کریں اور امام