کتاب: مختصر مسائل و احکام حج و عمرہ اور قربانی و عیدین - صفحہ 50
فلسفہ عید: [186] اسلام نے انسان کے فطری جذبۂ اظہارِ مسرّت کے پیش ِنظر سال میں خوشی منانے کے دو مواقع مہّیا کئے ہیں (ابوداؤد ،ترمذی، نسائی،مسند احمد)پہلا موقعہ ماہِ رمضان کے اختتام پر،جسے’’عیدالفطر‘‘ کہا جاتا ہے اور دوسرا موقعہ مناسک ِحج مکمل کرنے اور حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کے عظیم فدایانہ کارنامے کی یادگار(۱۰ ذوالحج) ہے۔ عید کا دن تقدّس مآب خوشیوں کے ساتھ ساتھ بعض روایات کی رو سے روزہ داروں کی مغفرت وبخشش کا دن ہے۔(شعب الایمان و سنن کبریٰ بیہقی،الترغیب ابن شاہین،الضعفاء عقیلی،الفردوس دیلمی،کتاب الثواب ابوالشیخ،للتفصیل المرعاۃ شرح مشکوٰۃ ۴؍۳۰۹۔۳۱۰) آغاز وحکمِ عید: [187] عید الفطر کی مشروعّیت عیدالاضحیٰ سے پہلے ۲ ؁ھ میں ہوئی۔( تلخیص الحبیر ۱؍۲؍۷۹،الشرح الکبیر للرافعی بحوالہ الفتح الربانی ۶؍۱۹۹) نمازِ عید احناف کے نزدیک واجب،حنابلہ کے نزدیک فرض ِ کفایہ، مالکیہ وشافعیہ اور جمہور اہل ِ علم کے نزدیک سنّت ِ موٌکّدہ ہے۔(الفروع شرح المہذّب ۵؍۳،الفقہ علی المذاھب الاربعہ،الفتح الربانی ۶؍۱۳۹،المغنی ۳؍۲۵۲۔۲۵۵) امام شوکانی ،علّامہ نواب صدیق حسن خان،مولانا عطاء اللہ حنیف اور علّامہ البانی کا رحجان بھی اسکے وجوب کی طرف ہی ہے۔( پندرہ روزہ ترجمان دہلی،عیدالفطر نمبر ۱۹۸۶؁ء تمام المنّہ ص۳۴۴ الروضہ الندیہ ۱؍۱۴۲،نیل الاوطار ۲؍۳؍۳۱۰۔۳۱۱) خوبصورت لباس وخوشبو: [188] بعض صحابہ کے آثار سے پتہ چلتا ہے کہ عید کے دن غسل کرنا چاہیئے۔( مسند شافعی،