کتاب: مختصر مسائل و احکام حج و عمرہ اور قربانی و عیدین - صفحہ 42
صرف جمعہ کے دن ‘یوم ِعرفہ آنے والے حج کو’’حج ِاکبر‘‘ یا ’’اکبری حج‘‘ کہنا اور اسے ستّر حجوں کے برابر ثواب والی بات خود ساختہ و بلا دلیل ہے۔ قربانیاں : [154] فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(الکوثر:۲) کے کئی معنی بیان کر کے امام ابن ِکثیر نے ترجیح اسی معنیٰ کو دی ہے کہ اس سے مراد قربانی کا ذبح کرنا ہے۔(تفسیر ابن کثیر ۵؍۷۱۱) اور یہ سنّت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سنّت ِ ابراہیم علیہ السلام ہے،جو اسماعیل علیہ السلام کی قربانی وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (الصّٰفات:۱۰۷) کی یاد تازہ کرتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال قربانی دیا کرتے تھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کے دوران بھی قربانی دی۔ (ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،ابن خذیمہ،ابن حبان،بیہقی،مستدرک حاکم،معجم طبرانی کبیر) [155] جو شخص طاقت کے باوجود قربانی نہ کرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عیدگاہ سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔(ابن ماجہ،مسند احمد، دارقطنی، بیہقی،مستدرک حاکم) [156] حاجیوں میں سے ہر چھوٹے بڑے اور مرد و زن پر ایک قربانی ہے ،البتہ غیر حاجی ایک گھر والے سبھی افراد ایک قربانی میں شریک ہوتے ہیں۔ (ابوداؤد،ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،بیہقی،مسند احمد،مؤطا مالک اور معجم طبرانی کبیر)ان کی تعداد چاہے ایک سَو یا ایک سَو سے بھی زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔( نیل الاوطار ۳؍۵؍۱۲۱) [157] حج کے موقع پر اُونٹ اور گائے دونوں ہی سات حاجیوں کی طرف سے ہوتے ہیں ۔(صحیح مسلم) البتہ غیر حاجیوں کیلئے گائے سات گھروں کی طرف سے اور اُونٹ دس گھروں کی طرف سے کفایت کرجاتاہے۔(ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،ابن خذیمہ،ابن حبان،بیہقی،