کتاب: مختصر مسائل و احکام حج و عمرہ اور قربانی و عیدین - صفحہ 38
۱؍۲۴۴،المغنی ۳؍۵۰۰،فتاویٰ ابن تیمیہ ۲۶؍۹۷،انوار البشارات فی مسائل الحج والزیارات فاضل بریلوی ص ۲۹،احکام شریعت فاضل بریلوی حصہ سوم، معراج الدرایہ ص۱۲۴،جذب القلوب الی دار المحبوب شیخ عبدالحق دہلوی ص۱۷۱۔۱۷۲) [140] قبرِ شریف کے پاس شور پیدا کرنا یا طویل عرصہ تک رک کر شور کا باعث بننا بھی درست نہیں ، کیونکہ یہ ادب گاہِ عالَم ہے اور یہاں آوازوں کو پست رکھنا ضروری ہے۔(الحجرات:۲) صلوٰۃ و سلام سے فارغ ہوجائیں تو قبلہ رو ہو کر دعائیں مانگیں ، نہ کہ قبر شریف کی طرف منہ کرکے۔( التحقیق والایضاح ص۶۷) [141] حرم ِمکی کی طرح ہی مسجدِ نبوی سے بھی الٹے پاؤں نکلنا ایک خودساختہ فعل ہے ،جس کی کوئی شرعی حیثیّت نہیں ہے۔ (مناسک الحج والعمرہ ص۴۳) [142] قیامِ مدینہ منورہ کے دوران کسی بھی وقت اقامت گاہ سے وضوء کر کے جائیں اور مسجدِ قبا میں دورکعتیں پڑھ لیں ۔اسکا پورے عمرہ کے برابر ثواب ہے۔(ترمذی،مسنداحمد،نسائی،ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم، ابن ابی شیبہ، بیہقی،مسند ابو یعلی،تاریخ کبیر امام بخاری) مسجدِ قبا کی زیارت سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔(صحیح مسلم) [143] بقیع الغرقد یا جنت البقیع کی زیارت کر سکتے ہیں اور وہاں عام قبرستان کی زیارت والی دعاء کریں اور ان الفاظ کا اضافہ کردیں : ((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِاَ ھْلِ بَقِیْعِ الْغَرْقَدِ)) ’’اے اللہ! اس بقیعِ غرقد کے آسودگانِ خاک کی مغفرت فرمادے۔‘‘ [144] شہداءِ اُحد کی زیارت بھی جائز ہے اور وہاں بھی عام زیارتِ قبور والی دعاء کریں ۔