کتاب: مختصر مسائل و احکام حج و عمرہ اور قربانی و عیدین - صفحہ 34
[126] ان دِنوں تمام نمازیں انکے اوقات پر مگر قصر اور باجماعت ادا کریں ۔(بخاری ومسلم) [127] ۱۱۔۱۲ اور ۱۳ ذوالحج کو زوالِ آفتاب کے بعد تینوں جمرات کو سات سات کنکریوں سے رمی کرنا مسنون ہے۔ (ترمذی،ابن ماجہ)صحابہyکا عمل بھی یہی تھا۔ (بخاری) پہلے چھوٹے پر رمی کریں اور فارغ ہوکر ایک طرف ہو جائیں اور قبلہ رو ہو کر دعاء مانگیں ، ایسے ہی درمیانے پر کریں ،البتہ بڑے کے پاس دعاء ثابت نہیں ۔(بخاری ومسلم) [128] اگر کوئی صرف ۱۱۔۱۲ کی رمی کرنے پر ہی اکتفاء کرتا ہے، تو اسکے لئے یہ جائز ہے۔(البقرہ: ۲۰۳) ۱۲ ذوالحج کی رمی کرکے مغرب سے پہلے پہلے اپنی جگہ سے روانہ ہوجائیں اور اگر وہیں مغرب ہوگئی تو پھر اگلے دن ۱۳ ذوالحج کی رمی کرنا ضروری ہوجائے گا۔(مؤطا) احناف اور جمہور علماء کا یہی مسلک ہے(مؤطا امام محمد ص۲۳۳،المجموع ۸؍۲۸۳ المغنی۳؍۴۰۷) [129] بچوں ،بوڑھوں ،بیماروں اور عورتوں کیلئے اگرخود جاکررمی کرنے کی گنجائش نہ ہو تو وہ وکیل مقرر کرسکتے ہیں اس سلسلہ میں بعض ضعیف احادیث بھی ترمذی، ابن ماجہ،مسنداحمد، ابن ابی شیبہ،اور معجم طبرانی اوسط میں ہیں ۔(فقہ السنہ ۱؍۷۳۵،المغنی۳؍۲۸۶،التحقیق ص۵۰،النیل ایضاً)وکیل پہلے خود اپنی سات کنکریاں ایک ایک کرکے مارے ،پھر مؤکِّلین کی بھی اسی طرح مارے، مٹھی بھر کر کنکریاں پھینک دیں تو یہ رمی شمارنہیں ہوگی۔(المغنی۳؍۲۸۶) [130] ایامِ تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا واجب ہے۔(ابوداؤد،ابن خذیمہ،ابن حبان، دارقطنی،بیہقی،مسنداحمد،مستدرک حاکم نیز دیکھئے نیل الاوطار شوکانی ۳؍۵؍۸۰)