کتاب: مختصر مسائل و احکام حج و عمرہ اور قربانی و عیدین - صفحہ 12
بعض وجوہات کی بناء پر غلط ہے۔سواری اللہ کی نعمت ہے۔استطاعت ہو تو اسے استعمال کرلینا چاہیئے۔اور یہی افضل ہے۔( فقہ السنہ ۱؍۶۴۰،فتح الباری ۴؍۶۹،۷۹۔۸۰،۱۱؍۵۸۸۔۵۸۹)
یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔(صحیحین سنن ِ اربعہ ،ابن خذیمہ،بیہقی،طبرانی اوسط)
مواقیت ِ حج وعمرہ:
[38] عمرہ کیلئے سال کے کسی بھی ماہ اور کسی بھی وقت احرام باندھا جاسکتا ہے۔(الفتح الربانی ۱۱؍۵۱۔۵۸) البتہ حج کے احرام کیلئے مہینے مقرر ہیں ۔ (البقرہ:۱۸۹،۱۹۷) جو کہ شوال،ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں ۔( بخاری تعلیقاً، شافعی، حاکم،دارقطنی،بیہقی، طبرانی اوسط و صغیر)
[39] حج وعمرہ کیلئے جانے والوں کے احرام باندھنے کے مقامات یہ ہیں :
(۱) مدینہ سے ہوتے ہوئے آنے والوں کیلئے ذوالحلیفہ(بئر علی)، (۲)اہل ِ شام اور اس راہ سے (اندلس،الجزائر،لیبیا،روم،مراکش وغیرہ سے)آنے والوں کیلئے جحفہ (رابغ)، (۳)اہل ِ نجد اور براستہ الریاض۔الطائف گزرنے والوں کیلئے قرن المنازل(السیل الکبیر یا وادیٔ محرم)،
(۴)اہل ِ یمن اور اس راستے سے (جنوبِ سعودیہ،انڈونیشیا،چین،جاوہ،انڈیا اور پاکستان سے)آنے والوں کیلئے یلملم (سعدیہ) (۵)اوران مقامات سے اندرونی جانب رہنے والوں کیلئے انکے اپنے گھر ہی میقات ہیں ۔(صحیح بخاری ومسلم)6۔اہل ِ عراق اور اس راستہ سے(ایران اور براستہ حائل) آنے والوں کا میقات ذات ِعرق نامی مقام ہے۔(صحیح مسلم)مصر کیلئے بھی شام والوں کا ہی میقات ہے۔(نسائی،دارقطنی،بیہقی،نیز دیکھیئے:فتح الباری ۳؍۳۸۴۔۳۹۱،الفتح الربانی ۱۱؍۱۰۵ وما بعد،المرعاۃ شرح مشکوٰۃ ۶؍۲۳۲ ومابعد،فقہ السنہ)