کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 92
انہوں[صحابہ]نے عرض کیا:’’یارسول اللہ!(دوسرے دنوں میں کیا ہوا) جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’(دوسرے دنوں میں کیا ہوا) جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہاں،مگر وہ شخص جو اپنی جان و مال کے ساتھ[راہ جہاد میں]نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے۔[یعنی اپنی جان و مال اسی راہ میں قربان کردے]۔‘‘ حافظ ابن رجب نے اس کی شرح میں تحریر کیا ہے:’’جب ان دس دنوں میں کیا ہوا اچھا کام بارگاہ الٰہی میں سال کے باقی سارے دنوں میں کیے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ فضیلت والا اور محبوب ہے،تو ان دنوں کی کم درجہ کی نیکی،دوسرے دنوں کی بلند درجہ والی نیکی سے افضل ہوگی،اسی لیے جب حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا،کہ کیا سال کے بقیہ دنوں میں کیا ہوا جہاد بھی دربارِ رب العالمین میں ان دنوں کے عمل سے زیادہ عظمت والا اور عزیز نہیں؟،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:’’نہیں‘‘۔[1] حافظ ابن حجر نے عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’وَالَّذِيْ یَظْہَرُ أَنَّ السَبَبَ فِي اِمْتِیَازِ عَشْرِ ذِي الْحَجَّۃِ لِمَکَانِ اجْتِمَاعِ أُمَّہَاتِ الْعِبَادَۃِ فِیْہِ،وَھِيَ الصَّلَاۃُ،وَالصِّیَامُ،وَالصَّدَقَۃُ،وَالْحَجُّ،وَلَا یَتَأَتَّی ذٰلِکَ فِي غَیْرِہِ۔‘‘[2] ’’عشرہ ذوالحجہ کی امتیازی شان کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے،کہ ان دنوں میں بنیادی عبادات،جو کہ نماز،روزہ،صدقہ اور حج ہیں،وہ سب اکٹھی ہوجاتی ہیں اور وہ ان کے علاوہ کسی اور دن میں جمع نہیں ہوتیں۔‘‘
[1] لطائف المعارف ۴۵۸۔۴۵۹۔ [2] فتح الباري ۲؍۴۶۰۔