کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 83
چوبند،اور حتی الامکان خالی از عیوب ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عیوب کی نشاندہی فرمائی ہے،جن میں سے کسی ایک عیب کی ہونا جانور کو قربانی کے لیے نا اہل ٹھہرائے جانے کا سبب ہوگا۔ذیل میں اس بارے میں دو حدیثیں پیش کی جارہی ہیں: ۱: حضرات ائمہ احمد،ابوداؤد،ترمذی،نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا،کہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے،اور میری انگلیاں،آپ کی انگلیوں سے کوتاہ،اور میری پوریں آپ کی پوروں سے چھوٹی ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’أَرْبَعٌ لَا تَجُوْزُ فِي الْأَضَاحِي:اَلْعَوْرَائُ بَیِّنٌ عَوَرُہَا،وَالْمَرِیْضَۃُ بَیِّنٌ مَرَضُہَا،وَالْعَرْجَائُ بَیِّنٌ ظَلْعُہَا،وَالْکَسِیْرُ الَّتِي لَا تَنْقِيْ۔‘‘ [چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں،یک چشم جس کا یک چشم ہونا بالکل صاف طور پر معلوم ہو،بیمار جس کی بیماری واضح ہو،لنگڑا جس کا لنگڑا پن نمایاں ہوا ور ایسا بوڑھا،کہ اس ہڈیوں میں گودا نہ رہا ہو]۔ اس[عبید بن فیروز[1]]نے کہا:میں نے کہا:’’میں[قربانی کے جانور کے]دانت میں نقص کو ناپسند کرتا ہوں۔‘‘ انہوں[براء بن عازب رضی اللہ عنہ]نے جواب دیا:’’جو تمہیں ناپسند ہے،اس کو چھوڑ دو[یعنی اس کی قربانی نہ کرو]،لیکن[اپنی ناپسند کے سبب]دوسروں پر اس جانور کی قربانی کو حرام قرار نہ دو۔‘‘[2]
[1] ملاحظہ ہو:المسند ۴؍۳۰۰۔ [2] المسند ۴؍۳۰۰(ط:المکتب الإسلامی)؛ سنن أبي داود،کتاب الضحایا،باب ما یکرہ من الضحایا،رقم الحدیث ۲۷۹۹،۷؍۳۵۷۔۳۵۸؛ وجامع الترمذي،أبواب الأضاحي،باب ما لا یجوز من الأضاحي،رقم الحدیث ۱۵۳۰،۵؍۶۷؛ وسنن النسائی،کتاب الضحایا،العرجاء ۷؍۲۱۵؛ وسنن ابن ماجہ،أبواب الأضاحي،ما یکرہ أن یضحی بہ،رقم الحدیث ۳۱۸۲،۲؍۲۰۷۔الفاظِ حدیث سنن ابی داؤد کے ہیں۔امام ترمذی نے اسے[حسن صحیح]؛ امام نووی اور شیخ البانی نے[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:جامع الترمذي ۵؍۶۸؛ والمجموع ۸؍۲۹۹؛ وصحیح سنن أبي داود ۲؍۵۳۹؛ وصحیح سنن ابن ماجہ ۲؍۲۰۲)۔