کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 59
۴: امام ابن ماجہ نے حضرت ابوسریحہ رضی اللہ عنہ [1] سے روایت بیان کی ہے،کہ انہوں نے کہا: ’’حَمَلَنِي أَہْلِیْ عَلَی الْجَفَائِ،بَعْدَ مَا عَلِمْتُ مِنَ السُّنَّۃِ،کَانَ أَہْلُ الْبَیْتِ یُضَحُّوْنَ بِالشَّاۃِ وَالشَّاتَیْنِ،وَالآنْ یُبَخِّلُنَا جِیْرَانُنَا۔‘‘[2] ’’میرے گھر والوں نے مجھے غلط روی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی،جب کہ مجھے اس سنت کا علم ہے،کہ[عہد رسالت میں]ایک گھر والے ایک یا دو بکریاں[قربانی کے لیے]ذبح کیا کرتے تھے اور اب اگر ہم ایسا کریں،تو ہمارے پڑوسی ہمیں بخیل ہونے کا طعنہ دینے لگتے ہیں۔‘‘ ۵: امام بیہقی نے عکرمہ سے روایت نقل کی ہے،کہ: ’’کَانَ أَبُوْہُرَیْرَۃَ رضی اللّٰهُ عنہ یَجِیْئُ بِالشَّاۃِ،فَیَقُوْلُ أَہْلُہُ:’’وَعَنَّا‘‘،فَیَقُوْلُ:’’وَعَنْکُمْ۔‘‘[3] ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ[قربانی کے لیے]بکری لاتے،تو ان کے گھر والے کہتے تھے:’’اور ہماری طرف سے‘‘،تو وہ جواب میں فرماتے:’’اور[یہ]بکری تمہاری طرف سے[بھی]ہے۔‘‘
[1] (ابوسریحہ رضی اللہ عنہ ):بیعت رضوان میں شریک ہونے والے صحابہ میں سے ہیں۔ان کا اسم گرامی حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ ہے۔(ملاحظہ ہو:ہامش المستدرک ۴؍۲۲۸)۔ [2] سنن ابن ماجہ،أبواب الأضاحي،من ضحّی بشاۃ من أہلہ،رقم الحدیث ۳۱۸۶،۲؍۲۰۸۔علامہ سندھی،علامہ شوکانی اور شیخ البانی نے اس کی سند کو[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:عون المعبود ۸؍۳،نیل الأوطار ۵؍۲۱۰؛ وصحیح سنن ابن ماجہ ۲؍۲۰۲)۔ [3] السنن الکبریٰ،کتاب الضحایا،باب الرجل یضحي عن نفسہ وعن أہل بیتہ،رقم الروایۃ ۱۹۰۵۶،۹؍۴۵۰۔