کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 55
اس بات پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے،جسے امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے بارے میں روایت کیا ہے اور اس میں ہے: ’’ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمَنْحَرِ،فَنَحَرَ ثَلاَثا وَسِتِّیْنَ بِیَدِہِ،ثُمَّ أَعْطَی عَلِیًّا رضی اللّٰهُ عنہ فَنَحَرَ مَا غَبَرَ۔‘‘[1] ’’پھر آپ قربان گاہ تشریف لے گئے۔تریسٹھ قربانیاں اپنے ہاتھ سے ذبح فرمائی،پھر باقی ماندہ علی رضی اللہ عنہ کو دی اور انہوں نے ان کو ذبح کردیا۔‘‘ امام نووی نے اس کے بارے میں لکھا ہے: ’’وَفِیْہِ اِسْتِحْبَابُ ذِبْحِ الْمُہْدِيْ ہَدْیَہُ بِنَفْسِہِ،وَجَوَازُ الاِسْتِنَابَۃِ فِیْہِ،وَذٰلِکَ جَائِزٌ بِالْإِجْمَاعِ۔‘‘[2] ’’اس میں یہ ہے،کہ حج کی قربانی خود ذبح کرنا مستحب اور کسی دوسرے کو ذبح کرنے میں اپنا نائب بنانا جائز ہے اور نائب بنانے کے جواز پر اجماع ہے۔‘‘ ۴: مسلمان خاتون کا اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے۔امام بخاری نے ذکر کیا ہے: ’’وَأَمَرَ أَبُوْ مُوْسٰی رضی اللّٰهُ عنہ بَنَاتِہِ أَنْ یُضَحِّیْنَ بِأَیْدِیْہِنَّ۔‘‘[3] ’’ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیا،کہ وہ اپنی قربانیاں خود ذبح کریں۔‘‘
[1] صحیح مسلم،کتاب الحج،باب حجۃ النبي صلي اللّٰهُ عليه وسلم،جزء من رقم الحدیث ۱۴۷۔(۱۲۱۸)،۲؍۸۹۲۔ [2] شرح النووي ۸؍۱۹۲۔ [3] صحیح البخاري،کتاب الأضاحي،۱۰؍۱۹۔نیز ملاحظہ ہو:مصنف عبد الرزاق،کتاب المناسک،باب فضل الضحایا والھدي،وہل یذبح المحرم؟رقم الروایۃ ۷۱۶۹،۴؍۳۸۹؛ وفتح الباري ۱۰؍۱۹،وعمدۃ القاري ۲۱؍۱۵۵۔