کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 39
اور آپ ان دونوں مینڈھوں(کے گوشت) کے مسکینوں کو کھلاتے،خود بھی اس سے تناول فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتے۔‘‘ (۵) میت کی طرف سے مستقل قربانی کرنا بعض علمائے امت کی رائے میں فوت شدہ شخص کی طرف سے مستقل قربانی کرنا بھی درست ہے۔انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے،جس کو حضرات ائمہ احمد،ابوداؤد،ترمذی اور حاکم نے حضرت حنش سے روایت کیا ہے،کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ضَحَّی عَلِيٌّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم بِکَبْشَیْنِ:کَبْشٍ عَنِ النَّبِيِّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم،وَکَبْشٍ عَنْ نَفْسِہِ،وَقَالَ:’’أَمَرَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم أَنْ أُضَحِّيَ عَنْہُ،فَأَنَّا أُضَّحِّي أَبَدًا۔‘‘[1] ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی:ایک مینڈھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور ایک مینڈھا اپنی طرف سے،اور فرمایا:’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا،کہ میں ان کی طرف سے قربانی کروں۔لہٰذا میں ہمیشہ[ان کی طرف سے]قربانی کرتا رہوں گا۔‘‘ امام طیبی فرماتے ہیں:
[1] المسند،رقم الحدیث ۱۲۷۸،۲؍۳۱۶۔۳۱۷(ط:دارالمعارف بمصر)؛ وسنن أبی داود،کتاب الضحایا،باب الأضحیۃ عن المیت،رقم الحدیث ۲۷۸۷،۷؍۳۴۴؛ وجامع الترمذي،أبواب الأضاحي،باب فی الأضحیۃ بکبشین،رقم الحدیث ۱۵۲۸،۵؍۶۵؛ والمستدرک علی الصحیحین،کتاب الأضاحی،۴؍۲۲۹۔۲۳۰۔الفاظِ حدیث المستدرک کے ہیں۔