کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 37
قربانی میں شامل فرمایا۔ ۲:امام ابویعلی نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے: ’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم أُتِيَ بِکَبْشَیْنِ أَقْرَنَیْن أَمْلَحَیْن عَظِیْمَیْن مَوْجُوْئَیْن،فَأَضْجَعَ أَحَدَہُمَا،وَقَالَ: ’’بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ عَنْ مُحَمَّدٍ۔صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔وَأُمَّتِہِ مَنْ شَہِدَ لَکَ بِالتَّوْحِیْدِ،وَشَہِدَ لِيْ بِالْبَلَاغِ۔‘‘[1] ’’یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو سینگوں والے،چت کبرے،بڑے بڑے خصی مینڈھے لائے گئے۔آپ نے ان دونوں میں سے ایک کو پچھاڑا اور فرمایا:[جس کا ترجمہ یہ ہے] ’’اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ،اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے۔محمد۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی طرف سے اور ان کی امت میں اس شخص کی طرف سے،جس نے آپ کی توحید کی گواہی دی اور میرے[پیغامِ الٰہی کو]پہنچانے کی شہادت دی۔‘‘ اس حدیث شریف سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قربانی میں امت کے ان سب افراد کو شامل فرمایا،جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور آپ کے پیغامِ حق پہنچانے کی شہادت دے چکے تھے اور ایسے لوگوں میں سے بہت سے حضرات قربانی دینے کے وقت سے پہلے وفات پاچکے تھے۔ ب: جس قربانی میں میت کو زندہ لوگوں کے ساتھ شریک کیا جائے،اس کا گوشت قربانی کرنے والے خود بھی کھائیں،مسکینوں کو بھی کھلائیں۔امام بزار نے
[1] منقول از مجمع الزوائد،کتاب الأضاحي،باب أضحیَّۃ رسول اللّٰهِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم،۴؍۲۲۔حافظ ہیثمی نے تحریر کیا ہے:’’اسے ابویعلی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند[حسن]ہے۔‘‘(المرجع السابق ۴؍۲۲)،شیخ البانی نے بھی اس کی سند کو[حسن]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:إرواء الغلیل ۴؍۲۵۱)۔