کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 36
فِیْ سَوَادٍ،وَیَنْظُرُ فِیْ سَوَادٍ،فَاُتِیَ بِہٖ لِیُضَحِّيَ بِہٖ،فَقَالَ لَہَا:’’یَا عَائِشَۃُ!ہَلُمِّي الْمِدْیَۃَ‘‘۔ ثُمَّ قَالَ:’’اشْحَذِیْہَا بِحَجَرٍ‘‘۔ فَفَعَلَتْ،ثُمَّ أَخَذَہَا،وَأَخَذَ الْکَبْشَ،فَأَضْجَعَہٗ،ثُمَّ ذَبَحَہٗ،ثُمَّ قَالَ: ’’بِسْمِ اللّٰہِ اللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰهُ عليه وسلم ‘‘، ثُمَّ ضَحّٰی بِہٖ۔‘‘[1] ’’یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگوں والا ایک مینڈھا لانے کا حکم دیا،جس کے ہاتھ،پاؤں،پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں۔چنانچہ وہ آپ کے پاس لایا گیا،تاکہ آپ اس کی قربانی کریں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:’’اے عائشہ رضی اللہ عنہا!’’چھری لاؤ۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا:اس کو پتھر پر تیز کرو۔‘‘ انہوں[حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا]نے حکم کی تعمیل کی،پھر آپ نے چھری کو تھاما،اور مینڈھے کو ذبح کرنے کے لیے لٹادیا۔پھر آپ نے فرمایا: [جس کا ترجمہ یہ ہے]اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ!اے اللہ!محمد،آل محمد،اور امت محمد-صلی اللہ علیہ وسلم-کی طرف سے قبول فرمائیے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کو ذبح فرمایا۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قربانی مدینہ طیبہ میں کی اور اس سے پیشتر آپ کی آل اور امت میں سے بہت سے لوگ فوت ہوچکے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو اس
[1] صحیح مسلم،کتاب الأضاحي،باب استحباب الضحیَّۃ،وذبحہا مباشرۃ بلا توکیل،والتسمیۃ والتکبیر،رقم الحدیث ۱۹۔(۱۹۶۷)،۳؍۱۵۵۷۔