کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 34
لیے قربانی کرنا ثابت ہے۔امام ابوداؤد نے اس حدیث پر یہ عنوان قائم کیا ہے: [بَابٌ فِي الْمُسَافِرِ یُضَحِّي][1] [مسافر کے قربانی کرنے کے متعلق باب] امام نووی اس حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں:اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے،کہ جس طرح مقیم کے لیے قربانی کرنا مشروع ہے،اسی طرح مسافر کے لیے مشروع ہے۔[2] علاوہ ازیں اس حدیث شریف سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے،کہ حاجی کے لیے عید الاضحی کی قربانی دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ۲: امام بخاری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا: ’’فَلَمَّا کُنَّا بِمِنٰی اُتِیْتُ بِلَحْمِ بَقَرٍ،فَقُلْتُ:’’مَا ہٰذَا‘‘؟ قَالُوْا:’’ضَحّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم عَنْ اَزْوَاجِہٖ بِالْبَقَرِ۔‘‘[3] ’’پس ہم جب منیٰ میں تھے،تو میرے پاس گائے کا گوشت لایا گیا،تو میں نے دریافت کیا:’’یہ کیسا[گوشت]ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔‘‘ امام بخاری نے اس حدیث پر یہ عنوان قائم کیا ہے: [بَابُ الْأُضْحِیَّۃِ لِلْمُسَافِرِ وَالنِّسَائِ][4]
[1] سنن أبي داود،کتاب الضحایا،۸؍۹۔ [2] ملاحظہ ہو:شرح النووي ۱۳؍۱۳۴۔ [3] صحیح البخاري،کتاب الأضاحي،جزء من رقم الحدیث ۵۵۴۸،۱۰؍۵۔ [4] المراجع السابق ۱۰؍۵۔