کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 30
روایت کیا ہے،کہ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إِذَا رَأَیْتُمْ ہِلَالَ ذِي الْحِجَّۃِ وَاَرَادَ اَحَدُکُمْ أَنْ یُّضَحِّيَ،فَلْیُمْسِکْ عَنْ شَعْرِہٖ وَاَظْفَارِہٖ۔‘‘[1] ’’جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا قربانی کرنے کا ارادہ ہو،تو اپنے بالوں اور ناخنوں[کو کاٹنے اور تراشنے]سے بچو۔‘‘ ۲: ناخنوں سے بچنے سے مراد یہ ہے،کہ وہ نہ ناخنوں کو قلم کرے اور نہ ہی توڑے۔بالوں سے بچنے کا معنی یہ ہے،کہ وہ بال مونڈے،نہ ہلکے کرے،نہ نوچے اور نہ ہی جلا کر انہیں ختم کرے۔بال جسم کے کسی بھی حصے،سر،مونچھوں،بغلوں،زیر ناف یا کسی اور عضو کے ہوں،انہیں چھیڑنا نہیں۔[2] ۳: حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اسی بات کی لوگوں کو تلقین فرماتے۔امام ابن حزم نے ابن ابی کثیر سے روایت کی ہے: ’’أَنَّ یَحْیَی بْنَ یَعْمَرَ کَانَ یُفْتِيْ بِخُرَاسَان أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا اشْتَرَی أُضْحِیَۃً،وَدَخَلَ الْعَشْرُ أَنْ یَکُفَّ عَنْ شَعْرِہِ وَأَظْفَارِہِ حَتَّی یُضَحِّيَ۔ قَالَ سَعِیْدٌ:قَالَ قَتَادَۃ:’’فَذَکَرَتْ ُذٰلِکَ لِسَعِیْد بْنِ المسیَّب،فَقَالَ:’’نَعَم‘‘۔ فَقُلْتُ:’’عَمَّنْ یَا أَبَا مُحَمَّد؟‘‘ قَالَ:’’عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔‘‘[3]
[1] صحیح مسلم،کتاب الأضاحی،باب نھي من دخل علیہ عشر ذي الحجۃ،وہو مرید التضحیۃ،أن یأخذ من شعرہ وأظفارہ شیئًا،رقم الحدیث ۴۱۔(۱۹۷۷)،۳؍۱۵۶۵۔ [2] ملاحظہ ہو:شرح النووي ۱۳؍۱۳۸۔۱۳۹۔ [3] المحلّی،مسألۃ ۹۷۶،۸؍۲۸۔