کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 29
’’جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے،وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘ ۹: حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم قربانی کا بہت اہتمام کرتے تھے۔امام بخاری نے حضرت ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے،کہ انہوں نے کہا،کہ: ’’کُنَّا نُسَمِّنُ الْأُضْحِیَۃَ بِالْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ الْمُسْلِمُوْنَ یُسَمِّنُوْنَ۔‘‘[1] ’’ہم مدینہ(طیبہ) میں قربانی کے جانوروں کی پرورش کرکے فربہ کرتے تھے اور[دیگر]مسلمان بھی اسی طرح انہیں پال کر موٹا کرتے تھے۔‘‘ ۱۰: قربانی کے متعلق حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا اہتمام اس بات سے بھی واضح ہوتا ہے،کہ انہوں نے حالتِ سفر میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں قربانی کی۔[2] (۲) قربانی کرنے والا ہلال ذوالحجہ کے بعد بالوں اور ناخنوں کو نہ چھیڑے جس شخص نے قربانی کا ارادہ کیا ہو،وہ ذوالحجہ کے چاند کے بعد اپنے بالوں اور ناخنوں سے باز رہے۔ذیل میں توفیقِ الٰہی سے اس بارے میں چھ باتیں پیش کی جارہی ہیں: ۱: اس کی دلیل وہ حدیث ہے،جس کو امام مسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے
[1] صحیح البخاري،کتاب الأضاحي،باب أضحیۃ النبي صلي اللّٰهُ عليه وسلم بِکَبْشَیْنِ أَقْرَنِیْن،وَیُذکَر سَمِیْنَیْن،۱۰؍۹۔ [2] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:کتاب ہذا کا ص ۳۵۔