کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 27
’’جس نے نماز[عید]سے پہلے[جانور]ذبح کیا،تو اس نے اپنے لیے ذبح کیا ہے اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا،اس کی قربانی مکمل ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کو پالیا۔‘‘
۵: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی سنت ابراہیمی علیہ السلام پر مداومت اور ہمیشگی فرمائی۔امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا:
’’کَانَ النَّبِيُّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم یُضَحِّي بِکَبَشَیْنِ،وَأَنَا أُضَحِّيْ بِکَبْشَیْنِ۔‘‘[1]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھے ذبح کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھے ذبح کرتا ہوں۔‘‘
حافظ ابن حجر نے تحریر کیا ہے،کہ:’’اس روایت سے[آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے]ہمیشہ قربانی کرنے کا پتہ چلتا ہے۔‘‘[2]
۶: قربانی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید اہتمام اس بات سے بھی واضح ہوتا ہے،کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کی قربانی کے سو اونٹ ذبح کرنے کے علاوہ عید الاضحی کی قربانی بھی کی۔اپنی طرف سے ایک بکری اور ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی طرف سے ایک گائے ذبح فرمائی۔[3]
[1] صحیح البخاري،کتاب الأَضَاحِيْ،باب أضحیۃ النبی صلي اللّٰهُ عليه وسلم بکبشَیْن أقرنین،رقم الحدیث ۵۵۵۳،۱۰؍۹۔
[2] فتح الباري ۱۰؍۱۰۔ایک حدیث میں ہے،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں دس سالہ مدتِ قیام کے دوران قربانی کرتے رہے۔(ـملاحظہ ہو:جامع ترمذي،أبواب الأضاحي،باب،رقم الحدیث ۱۵۴۳،۵؍۷۹…۸۰)،لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔(ملاحظہ ہو:ضعیف سنن الترمذي ص ۱۷۸)،اسی لیے متن میں درج نہیں کی گئی۔
[3] اس بات کی تفصیل کتاب ہذا کے ص ۵۴میں ملاحظہ کیجئے۔