کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 26
مجاہد اور ابن قتیبہ نے کہا ہے،کہ[نُسُکِيْ]سے مراد قربانیاں ہیں۔[1]
مذکورہ بالا دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کا ذکر نماز کے ساتھ فرمایا ہے اور یہ بات بلاشک و شبہ قربانی کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
۳: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کے موقع پر نماز عید کے بعد قربانی کرنے کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔امام بخاری اور امام مسلم نے حضرات براء رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِہٖ فِيْ یَوْمِنَا ہٰذَا أَنْ نُصَلِّيَ،ثُمَّ نَرْجِعُ فَنَنْحَرُ۔مَنْ فَعَلَہٗ،فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا۔‘‘[2]
’’بے شک اس دن ہم پہلا کام یہ کرتے ہیں،کہ نماز[عید]ادا کرتے ہیں،پھر واپس آتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں۔جس شخص نے ایسے کیا،اس نے ہماری سنت کو پالیا۔‘‘
۴: ایک اور حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کے بعد قربانی کرنے کو[سُنَّۃُ الْمُسْلِمِیْن]’’اہل اسلام کی سنت‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔امام بخاری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے کہا،کہ:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ فَإِنَّمَا ذَبَحَ لِنَفْسِہٖ،وَمَنْ ذَبَحَ بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَقَدْ تَمَّ نُسُکُہٗ،وَأَصَابَ سُنَّۃَ الْمُسْلِمِیْنَ۔‘‘[3]
[1] ملاحظہ ہو:زاد المسیر ۳؍۱۶۱۔
[2] متفق علیہ:صحیح بخاري،کتاب الأضاحي،باب سنۃ الأضحیۃ،جزء من رقم الحدیث ۵۵۴۵،۱۰؍۳؛ وصحیح مسلم،کتاب الأضاحي،باب وقتہا،جزء من رقم الحدیث ۷۔(۱۹۶۱)،۳؍۱۵۵۳۔الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔
[3] صحیح بخاري،کتاب الأضاحي،باب سنۃ الأضحیۃ،رقم الحدیث ۵۵۴۶،۱۰؍۳۔نیز ملاحظہ ہو:صحیح مسلم،کتاب الأضاحي،باب وقتہا،رقم الحدیث ۴۔(۱۹۶۱)،۳؍۱۵۵۲۔