کتاب: مسائل قربانی - صفحہ 100
ذوالحجہ سے ہوتی ہے۔اس دن کو[یوم الترویۃ]اونٹوں کو پانی پلانے کا دن کہتے ہیں،کہ اس دن سفرِ حج کی تیاری کے لیے اونٹوں کو پانی پلایا جاتا تھا۔امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا: ’’فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ التَّرْوِیَۃِ تَوَجَّہُوْا إِلَی مِنٰی۔‘‘[1] ’’جب یوم الترویۃ(۸ ذوالحجہ) آیا،تو وہ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔‘‘ ۲:نو ذوالحجہ کو وقوفِ عرفات کرنا: نو ذوالحجہ کو میدانِ عرفات میں نمازِ ظہر سے غروبِ آفتاب تک ٹھہرنا حج کا رکن اعظم ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اَلْحَجُّ عَرَفَۃُ۔‘‘[2] ’’حج تو[وقوف]عرفات ہے۔‘‘ اس موقع کی ہوئی دعاؤں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خَیْرُ الدُّعَائِ دُعَائُ یَوْمِ عَرَفَۃ۔‘‘[3] ’’بہترین دعا یوم عرفہ کی دعا ہے۔‘‘
[1] صحیح مسلم،کتاب الحج،باب حجۃ النبي صلي اللّٰهُ عليه وسلم،جزء من الروایۃ ۱۴۷۔(۱۲۱۸)،۲؍۸۸۹۔ [2] حضرات ائمہ ابوداؤد،ترمذی،نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت عبد الرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن أبي داود ۱؍۳۶۷؛ وصحیح سنن الترمذي ۱؍۲۶۵،وصحیح سنن النسائی ۲؍۶۳۳،وصحیح سنن ابن ماجہ ۲؍۱۷۳)؛ البتہ سنن ابی داؤد کے الفاظ[اَلْحَجُّ اَلْحَجُ یَوْمُ عَرَفَۃَ]ہیں۔ [3] جامع الترمذي،أحادیث شتی من أبواب الدعوات،باب،جزء من رقم الحدیث ۳۸۱۹ عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنہما،۱۰؍۳۳۔شیخ البانیؒ نے اسے[حسن]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن الترمذي ۳؍۱۸۴)۔