کتاب: مسائل عیدین - صفحہ 76
’’إِنَّہُ قَدِ اجْتَمَعَ لَکُمْ فِيْ یَوْمِکُمْ ہٰذَا عِیْدَانِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْ أَہْلِ الْعَالِیَۃِ أَنْ یَنْتَظِرَ الْجُمُعَۃَ، فَلْیَنْتَظِرْھَا، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَرْجِعَ، فَلْیَرْجِعْ، فَقَدْ أَذِنْتُ لَہُ۔‘‘[1] ’’تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوگئیں ہیں۔ اہلِ عالیہ[2] میں سے جو انتظار کرنا پسند کرے، وہ انتظار کرے، اور جو واپس جانا چاہے، وہ واپس چلا جائے، میں نے اسے واپس جانے کی اجازت دے دی۔‘‘ ۴: امام بخاری نے ابوعبید سے روایت نقل کی ہے، کہ انھوں نے بیان کیا: ’’ثُمَّ شَہِدْتُ الْعِیدَ مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی اللّٰهُ عنہ، فَکَانَ ذٰلِکَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فَصَلّٰی قَبْلَ الْخُطْبَۃِ، ثُمَّ خَطَبَ، فَقَالَ: ’’یَاأَیُّہَا النَّاسُ! إِنَّ ہٰذَا یَوْمٌ قَدِ اجْتَمَعَ لَکُمْ فِیہِ عِیدَانِ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْتَظِرَ الْجُمُعَۃَ مِنْ أَہْلِ الْعَوَالِيْ، فَلْیَنْتَظِرْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ یَرْجِعَ، فَقَدْ أَذِنْتُ لَہٗ۔‘‘[3] ’’پھر میں عید کے موقع پر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ حاضر ہوا۔ انھوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی، پھر خطبہ ارشاد فرمایا، اور اس میں
[1] کنز العمال، کتاب الصلاۃ، الباب السادس في صلاۃ الجمعۃ وما یتعلق بہا، فصل في أحکامہا، جزء من رقم الروایۃ ۲۳۳۰۷، ۸/۳۷۰۔ [2] مدینہ طیبہ کے مضافات رہنے والے۔ [3] صحیح البخاري، کتاب الأضاحي، باب ما یؤکل من لحوم الأضاحي وما یتزود بہا، رقم الروایۃ ۵۵۷۲، ۱۰/۲۴۔