کتاب: مسائل عیدین - صفحہ 70
’’جو امام کے ساتھ[نماز]عید نہ پڑھ سکے، وہ چار رکعت پڑھے۔‘‘ ب: امام بخاری کی رائے میں ایسا شخص امام کی طرح دو رکعت ادا کرے۔ انھوں نے اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، حضرت انس رضی اللہ عنہ کے عمل، اور حضرت عکرمہ اور حضرت عطاء کے اقوال سے استدلال کیا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں: ’’بَابُ إِذَا فَاتَہُ الْعِیْدُ یُصَلِّيْ رَکْعَتَیْنِ، وَکَذٰلِکَ النِّسَآئُ، وَمَنْ کَانَ فِيْ الْبُیُوْتِ وَالْقُرٰی لِقَوْلِ النَّبِيِّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم : ’’ہٰذَا عِیْدُنَا أَہْلَ الْإِسْلَامِ‘‘؛ وَأَمَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ رضی اللّٰهُ عنہ مَوْلَاہُمْ ابْنَ أَبِيْ عُتْبَۃَ بِالزَّاوِیَۃِ، فَجَمَعَ أَہْلَہَ وَبَنِیْہِ، وَصَلّٰی کَصَلَاۃِ أَہْلِ الْمِصْرِ وَتَکْبِیْرِہِمْ۔[1] وَقَالَ عِکْرَمَۃُ: ’’أَہْلُ السَّوَادِ یَجْتَمِعُوْنَ فِيْ الْعِیْدِ، یُصَلُّوْنَ رَکْعَتَیْنِ کَمَا یَصْنَعُ الْإِمَامُ۔‘‘[2] وَقَالَ عَطَائُ: ’’إِذَا فَاتَہٗ الْعِیْدُ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ[3]۔‘‘[4] ’’اس بارے میں باب، کہ جس شخص کی نماز عید رہ جائے، وہ دو رکعت نماز پڑھے۔ اور اسی طرح عورتیں اور گھروں اور دیہاتوں میں موجود دوسرے لوگ(بھی دو رکعت نماز ادا کریں) کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ ہم مسلمانوں کی عید ہے۔‘‘[5]
[1] نیز ملاحظہ ہو: مصنف ابن أبي شیبۃ، کتاب الصلوات، ۲/۱۸۳۔ [2] نیز ملاحظہ ہو: المرجع السابق، في القوم یکونون فيْ السواد، فتحضر الجمعۃ أو العید، ۲/۱۹۱۔ [3] نیز ملاحظہ ہو: المرجع السابق، في الرجل تفوتہ الصلاۃ مع الإمام، علیہ التکبیر ۲/۱۹۲۔ [4] صحیح البخاري، کتاب العیدین، ۲/۴۷۴۔ [5] اس حدیث سے امام بخاری کے استدلال کا سبب بیان کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ دہلوی نے لکھا ہے: حدیث شریف میں عید کی اضافت مسلمانوں کی طرف کی گئی ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے، کہ عید بعض لوگوں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ وہ سب کی ہے اور چونکہ عید کی عبادت نمازِ عید ہے، اس لیے اس میں سب کا حصہ ہونا چاہیے۔(ملاحظہ ہو: رسالۃ شرح تراجم أبواب صحیح البخاري(المطبوع مع صحیح البخاري) ص ۲۷۔