کتاب: مسائل عیدین - صفحہ 60
کیا تھا۔ مروان نے اس منبرپر نماز سے پہلے چڑھنے کا ارادہ کیا، تو میں نے اس کے کپڑے کو کھینچا اور اس نے مجھے کھینچا۔[تاہم]وہ منبر پر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے خطبہ دیا۔
میں نے اس سے کہا: ’’اللہ تعالیٰ کی قسم! تم نے[مسنون طریقہ]کو تبدیل کردیا ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’ابوسعید! جس بات کا تمھیں علم ہے، وہ تو ختم ہوچکی ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ کی قسم! جس بات کا مجھے علم ہے وہ اس بات سے اعلیٰ ہے، جس کا مجھے علم نہیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’نماز کے بعد لوگ ہمارے[یعنی ہمارا خطبہ سننے کے]لیے نہیں بیٹھتے تھے، اس لیے میں نے خطبہ کو نماز سے پہلے کردیا ہے۔‘‘
اور صحیح مسلم میں ہے:
’’قُلْتُ: أَیْنَ الْاِبْتِدَائُ بِالصَّلَاۃِ؟‘‘
فَقَالَ: ’’لَا، یَا أَبَا سَعِیْدٍ! قَدْ تُرِکَ مَا تَعْلَمُ۔‘‘
قُلْتُ: ’’کَلَّا، وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ! لَا تَاْتُوْنَ بِخَیْرٍ مِّمَّا أَعْلَمُ۔‘‘(ثَلَاثَ مِرَارٍ)، ثُمَّ انْصَرَفَ۔‘‘[1]
میں نے کہا: ’’[خطبہ کی بجائے]نماز کے ساتھ آغاز کرنا کہاں گیا؟‘‘
اس نے کہا: ’’نہیں، اے ابوسعید! جس طریقے کی تجھے خبر ہے، وہ چھوڑا جاچکا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان
[1] صحیح مسلم، کتاب صلاۃ العیدین، جزء من رقم الحدیث ۹۔(۸۸۹)، ۲/۶۰۵۔