کتاب: مسائل عیدین - صفحہ 55
ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے اور اپنے لیے دعا کی جائے۔ امام بیہقی نے علقمہ سے روایت نقل کی ہے، کہ ولید بن عقبہ(حضراتِ صحابہ) ابن مسعود، ابوموسیٰ اور حذیفہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور ان سے پوچھا: ’’عید قریب آچکی ہے، اس میں تکبیرات کس طرح ہیں؟‘‘ عبد اللہ[بن مسعود]رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تَبْدَأُ فَتُکَبِّرُ تَکْبِیْرَۃً تَفْتَتِحُ بِہَا الصَّلَاۃَ، وَتَحْمَدُ رَبَّکَ، وَتُصَلِّيْ عَلَی النَّبِيِّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم، ثُمَّ تَدْعُوْ، وَتُکَبِّرُ، وَتَفْعَلُ مِثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ تُکَبِّرُ، وَتَفْعَلُ مِثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ تُکَبِّرُ، وَتَفْعَلُ مِثْلَ ذٰلِکَ، ثُمَّ تَقْرَأ…الخ۔[1] اللہ اکبر کہہ کر نماز[عید]شروع کرنا۔ اپنے رب کی حمد بیان کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا، پھر دعا کرنا اور اللہ اکبر کہنا اور اسی طرح کرنا۔[2]پھر اللہ اکبر کہنا، اور اسی طرح کرنا۔ پھر اللہ اکبر کہنا اور اسی طرح کرنا۔ پھر اللہ اکبر کہنا پھر قرأت کرنا… الخ امام بیہقی نے اس روایت کے نقل کرنے کے بعد تحریر کیا ہے: ’’وَہٰذَا مِنْ قَوْلِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰهُ عنہ مَوْقُوْفٌ عَلَیْہِ، فَنُتَابِعُہٗ فِيْ الَوَقُوْفِ بَیْنَ کُلِّ تَکْبِیْرَتَیْنِ لِلذِّکْرِ، إِذْ لَمْ یُرْوَ خِلَافَہُ عَنْ غَیْرِہٖ۔‘‘[3]
[1] السنن الکبریٰ، کتاب صلاۃ العیدین، باب یأتيْ بدعاء الافتتاح عقیب تکبیرۃ الافتتاح، ثم یقف بین کل تکبیرتین یھلل اللّٰہ تعالیٰ، ویکبرہ، ویحمدہ، ویصلي علی النبّي صلي الله عليه وسلم، جزء من رقم الروایۃ ۶۱۸۶، ۳/۴۱۰۔۴۱۱۔ نیز ملاحظہ ہو: المجموع ۵/۲۱؛ والمغني ۳/۲۷۴۔ ۲۷۵؛ والتلخیص الحبیر ۲/۸۶؛ وإرواء الغلیل ۳/۱۱۴۔۱۱۵۔ [2] یعنی اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا اور دعا کرنا۔ [3] السنن الکبرٰی ۳/۴۱۱۔