کتاب: مسائل عیدین - صفحہ 49
بِہٖ۔‘‘[1]
’’اور یہ[خنجر کو سترے کی غرض سے گاڑنا]اس لیے تھا، کیونکہ عید گاہ کھلی جگہ تھی، وہاں کوئی ایسی چیز نہ تھی، جسے بطور سترہ استعمال کیا جاتا۔‘‘
-۱۵-
نمازِ عید کی رکعتیں
نمازِ عید میں دو رکعت ہیں۔ حضراتِ ائمہ احمد، نسائی اور ابن خزیمہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے، کہ انھوں نے فرمایا:
’’صَلَاۃُ السَّفَرِ رَکْعَتَانِ، وَصَلَاۃُ الْأَضْحٰی رَکْعَتَانِ، وَصَلاۃُ الْفِطْرِ رَکْعَتَانِ، وَصَلَاۃُ الْجُمُعَۃِ رَکْعَتَانِ، تَمَامٌ غَیْرُ قَصْرٍ، عَلٰی لِسَانِ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰهُ عليه وسلم۔‘‘[2]
’’نمازِ سفر دو رکعت ہے، نمازِ عید الاضحی دو رکعت ہے، نمازِ عید الفطر دو رکعت ہے اور نماز جمعہ دو رکعت ہے۔ مکمل ہیں قصر نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق۔‘‘[3]
[1] ملاحظہ ہو: سنن ابن ماجہ، أبواب إقامۃ الصلوات، باب ما جاء في الحربۃ في یوم العید، جزء من رقم الحدیث ۱۲۹۷، ۱/۲۳۷؛ وصحیح ابن خزیمۃ، جماع أبواب صلاۃ العیدین، باب الخبر المفسِّر للعلّۃ في إخراج العنزۃ إلی المصلّٰی، جزء من رقم الحدیث ۱۴۳۵، ۲/۳۴۴۔ ۳۴۵۔ شیخ البانی نے اسے[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: صحیح سنن ابن ماجہ ۱/۲۱۹)۔
[2] المسند، رقم الحدیث ۲۵۷، ۱/۳۶۷(ط: مؤسسۃ الرسالۃ)؛ وسنن النسائي، کتاب صلاۃ العیدین، عدد صلاۃ العیدین، ۳/۱۸۳؛ وصحیح ابن خزیمۃ، جماع أبواب صلاۃ العیدین، باب عدد رکعات صلاۃ العیدین، رقم الحدیث ۱۴۲۵، ۲/۳۴۰۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔
امام نووی نے اسے[حسن]، شیخ البانی نے[صحیح]اور شیخ شعیب ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی[سند کو صحیح]کہا ہے۔(ملاحظہ ہو: المجموع ۵/۲۱؛ وصحیح سنن النسائي ۱/۳۴۳؛ وہامش المسند ۱/۳۶۷)۔
[3] یعنی ان چاروں نمازوں کی دو دو رکعتیں قصر کی وجہ سے نہیں، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی کے مطابق ان کی رکعتوں کی اصل تعداد ہی دو دو ہے۔