کتاب: مسائل عیدین - صفحہ 34
’’حَقٌّ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ إِذَا نَظَرُوْا إِلٰی ہِلَالِ شَوَّالٍ أَنْ یُکَبِّرُوْا اللّٰہَ، حَتّٰی یَفْرُغُوْا مِنْ عِیْدِہِمْ، لِأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی ذِکْرُہُ، یَقُوْلُ: {وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوْا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدَاکُمْ[1]}۔‘‘[2]
’’شوال کا چاند دیکھنے پر مسلمانوں پر لازم ہے، کہ وہ تکبیر کہیں اور تکبیر
کہنے کا یہ سلسلہ عید سے فارغ ہونے تک جاری رہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:(جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اور تاکہ تم[رمضان کے روزوں کی]گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر ان کی تکبیر کہو]‘‘
علامہ ابن قدامہ نے تحریر کیا ہے:
’’مذکورہ آیت کریمہ کی بنا پر دونوں عید کی راتوں میں [3] سب لوگ، خواہ وہ مسافر ہوں یا مقیم، اپنی مسجدوں، گھروں اور راستوں میں بآواز بلند تکبیر کہیں۔‘‘[4]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ تحریر کرتے ہیں: ’’عید الفطر میں تکبیر کا آغاز چاند دیکھنے سے اور اختتام عید سے فارغ ہونے پر ہے۔ اور عید سے فارغ ہونے سے… صحیح قول کے مطابق… مراد یہ ہے، کہ امام خطبہ سے فارغ ہوجائے۔‘‘[5]
خلاصہ کلام یہ ہے کہ، عید الفطر میں تکبیر شوال کا چاند دیکھنے سے لے کر امام کے خطبہ عید سے فارغ ہونے تک کہی جائے۔
[1] سورۃ البقرۃ / جزء من الآیۃ ۱۸۵۔
[2] تفسیر الطبري، رقم الروایۃ ۲۹۰۳، ۳/۴۷۹؛ نیز ملاحظہ ہو: زاد المسیر ۱/۱۸۸، وتفسیر البغوي ۱/۱۵۳۔
[3] عید کی رات سے مراد روزِ عید سے پہلے والی رات ہے۔
[4] المغني ۳/۲۵۵۔
[5] مجموع الفتاویٰ ۲۴/۲۲۱۔