کتاب: مسائل عیدین - صفحہ 32
علاوہ ازیں امام ابن ابی شیبہ نے حضرت زہری سے روایت نقل کی ہے، کہ:
’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم کَانَ یَخْرُجُ یَوْمَ الْفِطْرِ، فَیُکَبِّرُ، حَتّٰی یَأْتِيَ الْمُصَلّٰی، وَحَتّٰی یَقْضِيَ الصَّلَاۃَ، فَإِذَا قَضَی الصَّلَاۃَ، قَطَعَ التَّکْبِیْرَ۔‘‘ [1]
’’یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن تکبیریں کہتے ہوئے عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے، نماز ادا کرنے تک تکبیروں کا سلسلہ جاری رکھتے، جب نماز ادا کرلیتے، تو تکبیریں کہنا ترک کردیتے۔‘‘
مزید برآں امام ابن ابی شیبہ اور امام بیہقی نے نافع سے روایت نقل کی ہے کہ:
’’عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللّٰهُ عنہ أَنَّہٗ کَانَ یَغْدُوْ یَوْمَ الْعِیْدِ وَیُکَبِّرُ، وَیَرْفَعُ صَوْتَہُ، حَتّٰی یَبْلُغَ الْإِمَامُ۔‘‘[2]
’’ابن عمر رضی اللہ عنہ روزِ عید بلند آواز سے تکبیریں کہتے ہوئے روانہ ہوتے۔ اور یہ سلسلہ امام کے آنے تک جاری رکھتے۔‘‘
شیخ البانی تحریر کرتے ہیں:
’’یہ حدیث عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے جہری آواز سے تکبیریں کہنے کی مشروعیّت پر دلالت کرتی ہے اور مسلمانوں کا اس پر ہمیشہ سے عمل رہا ہے، اگرچہ اب بہت سے لوگوں نے دینی جذبہ کی کمزوری اور اظہارِ سنت میں
[1] المصنف، کتاب الصلوات، في التکبیر إذا خرج إلی العید، ۲/۱۶۴۔ شیخ البانی نے لکھا ہے، کہ: اگر یہ حدیث[مرسل]نہ ہوتی، تو اس کی سند[صحیح]ہے، البتہ امام بیہقی نے جو[موصول]حدیث روایت کی ہے، اس کی وجہ سے یہ حدیث[قوی]ہوگئی ہے۔(ملاحظہ ہو: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، رقم الحدیث ۱۷۱، ۱/۲/۱۱۹)۔
[2] المصنف، کتاب الصلوات، في التکبیر إذا خرج إلی العید، ۲/۱۶۴؛ والسنن الکبریٰ، کتاب صلاۃ العیدین، باب التکبیر لیلۃ الفطر ویوم الفطر، وإذا غدا إلیٰ صلاۃ العید، ۳/۳۹۴۔ الفاظِ حدیث المصنف کے ہیں۔