کتاب: مسائل عیدین - صفحہ 31
مؤلف نے[نمازِ عید کے لیے جانا]کی بجائے[عید گاہ کی طرف جانا]کے عنوان کو ترجیح دی ہے، تاکہ عید گاہ جانے میں سب بچے شریک ہوں، خواہ وہ نماز ادا کرتے ہوں یا[اپنی صغر سنی کی بنا پر]نماز ادا نہ کرتے ہوں۔[1]
تنبیہ:
بچوں کے سرپرست حضرات اس بات کا خیال رکھیں، کہ بچے نظم و ضبط کو خراب
نہ کریں، کہیں ایسا نہ ہو، کہ ان کے شورو غل اور کھیل کود کے سبب لوگوں کی نماز میں خلل پیدا ہو۔[2]
-۷-
تکبیرات پکارتے ہوئے عید گاہ جانا
مَردوں کو عیدگاہ کی طرف تکبیرات پکارتے جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ}[3]
[ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں۔ وہ چاہتے ہیں، کہ تم[رمضان کے روزوں کی]گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر ان کی تکبیر کہو[بڑائیاں بیان کرو]اور ان کا شکر کرو]۔
حافظ ابن کثیر تحریر کرتے ہیں، کہ علماء کی ایک کثیر تعداد نے اس آیت سے عید الفطر میں تکبیرات کہنے کی مشروعیّت کا استنباط کیا ہے۔[4]
[1] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۲/۴۶۴۔ نیز دیکھئے: عمدۃ القاري ۶/۲۹۷۔
[2] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۲/۴۶۶۔
[3] سورۃ البقرۃ / جزء من الآیۃ ۱۸۵۔
[4] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۱/۲۳۲۔۲۳۳؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبي ۲/۳۰۶؛ وزاد المسیر ۱/۱۸۸۔