کتاب: مسائل عیدین - صفحہ 25
الْحُیَّضُ فَیَعْتَزِلْنَ الصَّلَاۃَ، وَیَشْھَدْنَ الْخَیْرَ، وَدَعْوَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ۔‘‘
فَقُلْتُ: ’’یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم! إِحْدَانَا لَا یَکُوْنُ لَھَا جَلْبَابٌ‘‘
قَالَ: ’’لِتُلْبِسْھَا أُخْتُھَا مِنْ جَلْبَابِہَا۔‘‘[1]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا، کہ ہم عورتوں کو عید الفطر اور عید الاضحی میں[عید گاہ]لے جائیں، جوان لڑکیوں، حیض والی عورتوں اور پردہ نشین خواتین کو بھی۔ ہاں حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہیں۔[لیکن]وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔‘‘ [2]
میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ!- صلی اللہ علیہ وسلم - ہم میں سے کسی ایک کے پاس جلباب نہ ہو‘‘[یعنی وہ کیا کرے؟]۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی بہن اسے اپنی چادر اوڑھادے۔‘‘[3]
علامہ شوکانی نے لکھا ہے:
’’یہ حدیث اور اس کے ہم معنٰی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں، کہ سب عورتوں کا عیدین کے موقع پر عید گاہ جانا مستحب ہے، خواہ وہ غیر شادی شدہ ہوں یا شادی شدہ، جوان ہوں یا بوڑھی، حیض والی ہوں یا دوسری۔ البتہ عدّت والی عورتیں یا جن کے جانے میں فتنے کا اندیشہ ہو، یا کوئی اور عذر ہو، تو وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔‘‘[4]
اس حدیث کے ذکر کرنے کے بعد، علامہ ابن قدامہ نے، بعض ایسے حضرات
[1] صحیح مسلم، کتاب صلاۃ العیدین، باب ذکر إباحۃ خروج النسآء في العیدین إلی المصلّٰی وشھود الخطبۃ، مفارقات للرجال، رقم الحدیث ۱۲(…)، ۲/۶۰۶۔
[2] صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے: ’’قَالَتْ: ’’اَلْحُیَّضُ یَخْرُجْنَ، فَیَکُنَّ خَلْفَ النَّاسِ، یُکَبِِّرْنَ مَعَ النَّاسِ۔‘‘(المرجع السابق ۲/۶۰۶)۔ انھوں[اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا]نے کہا: ’’حیض والی عورتیں لوگوں کے پیچھے رہیں اور لوگوں کے ساتھ تکبیریں کہیں۔‘‘
[3] ترمذی کی روایت میں ہے: ’’قال: ’’فَلْتُعِرْھَا أُخْتُہَا مِنْ جَلْبَابِہَا۔‘‘[’’اس کی بہن اپنی جلباب اسے عاریتاً دے دے۔‘‘](جامع الترمذي، أبواب العیدین، باب خروج النسآء في العیدین، ۱/۳۷۹۔
[4] نیل الأوطار ۳/۳۵۴۔