کتاب: مسائل عیدین - صفحہ 20
ذٰلِکَ وِتْرًا۔‘‘[1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی عید الفطر کے دن تین، پانچ، سات یا اس سے کم یا زیادہ تعداد میں کھجوریں تناول کیے بغیر نہیں نکلے، کھجوروں کی تعداد بہرصورت طاق ہوتی۔‘‘ اس کی حکمت: اس روز صبح سویرے کھجوریں تناول کرنے میں بندے کی طرف سے اپنے مولائے کریم کے حکم کی فوری تعمیل کا اقرار و اظہار ہے۔ بندہ اپنے عمل سے اس بات کا اعلان کرتا ہے: اے میرے مالک! آپ نے روزے رکھنے کا حکم دیا، تو میں نے روزے رکھے۔ اب آپ کا حکم روزے چھوڑنے کا ہے، تو میں صبح سویرے آپ کے ارشاد کی تعمیل کی خاطر کھجوریں تناول کر رہا ہوں۔[2] اگر کھجوریں میسر نہ ہوں، تو کھانے کی جو چیز میسر ہو، وہی تناول کرلی جائے۔ اگر پانی کے سوا اور کچھ موجود نہ، ہو تو پانی ہی پی لیا جائے۔[3] ب: عید الاضحی: نمازِ عید کے بعد قربانی کے گوشت سے کھانا: عید الاضحی میں سنت طریقہ یہ ہے، کہ نمازِ عید کے بعد اپنی قربانی کے گوشت کے ساتھ روزِ عید کے کھانے کی ابتدا کرے۔ امام ترمذی نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انھوں نے بیان کیا:
[1] المستدرک علی الصحیحین، کتاب صلاۃ العیدین، ۱/۲۹۴۔ امام حاکم نے اسے مسلم کی شرط پر[صحیح]قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱/۲۹۴؛ والتلخیص۱/۲۹۴)۔ امام ابن حبان نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ البتہ اس میں[أَوْ أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ أَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ وِتْرًا]کے الفاظ نہیں۔(ملاحظہ ہو: الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ذکر ما یستحب للمرء أَنْ یکونَ أکلُہ التمرَ یوم العید وترا لا شفعًا، رقم الحدیث ۲۸۱۴، ۷/۵۳)۔ [2] ملاحظہ ہو: المغني ۳/۲۵۹؛ وفتح الباري ۲/۴۴۷۔ [3] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲/۴۴۷۔