کتاب: مرد و زن کی نماز میں فرق ؟ - صفحہ 7
مطابق نماز پڑھیں ۔یہ حکم ہر مسلمان کے لیے ہے ،خواہ مرد ہویاعورت۔اِسی طرح رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ حکم بھی عام ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
((صَلُّوْ اکَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ)) [1]
’’نماز ایسی پڑھا کرو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھاہے۔‘‘
اِن احادیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امت ِ محمدی کے ہرفردپر محمد رَّسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتّباع کرتے ہوئے نماز پڑھنا لازم ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض لوگوں نے عورتوں کو اتباع ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم کر رکھا اور ان کے لیے الگ طریقہ ٔ نماز ایجاد کیا ہواہے جس پر شریعت سے کوئی دلیل نہیں ۔ہاں جہاں بعض احکام میں شریعت نے عورتوں کو مردوں سے الگ کیا ہے وہاں تو الگ ہی رکھنا چاہیے۔لیکن اس میں ضروری ہے کہ صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کوئی ثبوت موجود ہو جیسا کہ پردے کا مسئلہ ہے۔عورتوں کے لیے اپنا سر ڈھانپنا ضروری ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:
((لَایَقْبَلُ اللّٰہُ صَلوٰۃَ حَائِضٍ إلَّا بِخِمَارٍ)) [2]
’’اللہ تعالیٰ بالغہ کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا‘‘۔
لیکن مرد کا سر اگر نماز میں ننگا ہوتو کوئی حرج نہیں ہے۔ [3]
اسی طرح مردوں کا فرض نماز وں کے لیے مسجدمیں آنا ضروری ہے،لیکن عورتوں پر مسجد جا نافرض نہیں ہے،ان کی نماز گھر میں زیادہ افضل ہے۔[4]
اسی طرح اگر عورت عورتوں کی امامت کرائے تو وہ صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی مردوں کی طرح آگے نہیں ۔[5]
لیکن مرد امامت کراتے وقت آگے کھڑاہوگا۔[6]
[1] صحیح بخاری:۱؍۸۸حدیث:۶۳۱
[2] ابوداؤد:۱؍۹۴
[3] تفصیل کیلئے دیکھیئے ہماری کتاب:’’ٹوپی وپگڑی سے یا ننگے سرنماز؟‘‘ مطبوعہ مکتبہ کتاب وسنّت ریحان چیمہ وتوحید پبلیکیشنز،بنگلورومکتبہ ابنِ حجر بھٹکل۔(ابوعدنان)
[4] بخاری :۱؍۸۹،مسلم:۱؍۲۳۲
[5] بیہقی:۱؍۱۳۱
[6] بخاری ومسلم وسننِ اربعہ