کتاب: مرد و زن کی نماز میں فرق ؟ - صفحہ 38
کو حکم دیا ہے۔ 11 آپ نے لکھا ہے کہ عورتوں پر جمعہ بھی واجب ہونا چاہیئے تو میرے محترم ! یہ بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ اعتراض کررہے ہیں البتہ آپ کو یہ محسوس نہیں ہورہا ہے کیونکہ عورتوں کو جمعہ کی فرضیّت سے ہم نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مستثنیٰ قراردیاہے۔ابوداؤد وغیرہ میں حضرت طارق ابن شہاب رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْجُمُعَۃُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ فِیْ جَمَاعَۃٍ اِلَّااَرْبَعَۃً عَبْداًمَمْلُوْکاً اَوْاِمْرَأَۃً اَوْصَبِیّاً اَوْ مَرِیْضاً)) [1] ’’جمعہ ہر مسلمان پر واجب ہے مگر غلام،عورت،بچے اور بیمار پر واجب نہیں ۔‘‘ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔[2] پس اس حدیث کی وجہ سے عورتیں جمعہ کی فرضیّت سے مستثنیٰ ہیں ۔ مداخلت فی الدین: آپ نے لکھا ہے کہ غیر مقلّدین ان امور میں عورت ومرد کے لیے فرق کے قائل ہیں ۔ ہاں جناب! ہم اس کے قائل ہیں اوریہ مداخلت فی الدّین اس لیے نہیں ہے کہ اس تفریق پر صحیح احادیث سے دلائل موجود ہیں اور جس مسئلے میں تفریق کی کوئی صحیح دلیل نہیں تو وہاں
[1] صحیح سنن ابی داؤد:۹۷۸،دارقطنی،بیہقی، المختارہ للضیاء،نیزدیکھیے:مشکوٰۃ بتحقیق البانی:۱۳۷۷، ارواء الغلیل:۵۹۲،۵۹۳ صحیح الجامع:۳۱۱۱،۳۱۱۳۔ [2] دیکھیئے: حوالہ جاتِ سابقہ