کتاب: مرد و زن کی نماز میں فرق ؟ - صفحہ 37
عورتوں کی صف بچوں کی صف سے پیچھے ہونی چاہیے۔بلکہ عورت اگرچہ اکیلی ہی کیوں نہ ہوتب بھی اُسے مردوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی اجازت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دی۔جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں وارد حدیث سے پتہ چلتا ہے۔ 8 اونچی آواز سے قراء ت اور آمین عورتوں کے لیے بھی جائز توہے لیکن جب ان کی الگ جماعت ہو۔اس میں بھی ہم فرق نہیں کرتے۔ 9 آپ نے جو یہ بات لکھی ہے کہ عورت کو بھی ننگے سر اور کہنیاں وٹخنے کھول کر نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔اس بات پرخود آپ ذرہ غور کیجیئے! یہ تو احادیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سراسرمقابلہ وانکارہے۔جب نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ: ’’ بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں ہوتی۔‘‘ اورارشاد فرمایا ہے: ((اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ )) [1] ’’عورت (ساری کی ساری) ڈھانپنے والی چیز ہے۔‘‘ اور کپڑوں کے بارے میں فرمایا کہ عورت اپنی آدھی پنڈلی سے ایک ذراع(بازو)کے برابر کپڑا نیچے رکھے،پس ان کے لیے ٹخنوں کا ڈھانپنا بھی ضروری ہے۔ ان واضح دلائل کے باوجود یہ کہنا کہ (عورت کو ننگے سر اور کہنیاں اور ٹخنے کھول کر نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیے)نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض نہیں تو اور کیا ہے؟ 10 یہ کہنا بھی انصاف کے خلاف ہے کہ عورتوں کے لیے بھی جماعت میں شرکت ضروری ہونی چاہیے۔کیونکہ پہلے حدیث ذکر ہوگئی ہے کہ عورت کی نماز گھر میں بہتر ہے۔ہاں اگر فتنے کا خطرہ نہ ہو تو نماز پڑھنے کے لیے عورتیں مسجد بھی جاسکتی ہیں ،لیکن باپردہ ہوکر، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لیے مسجد آنے کی رخصت دی ہے،البتہ امر اور حکم نہیں دیا جیسا کہ مردوں
[1] ترمذی بحوالہ صحیح الجامع:۶۶۹۰،ارواء الغلیل:۲۷۳ نیز دیکھیئے مشکوٰۃ:۳۱۰۹