کتاب: مرد و زن کی نماز میں فرق ؟ - صفحہ 28
اہلِ حدیث کا جواب: مسلمان کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب اسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول صحیح واسطے کے ساتھ پہنچے تو وہ فوراًاُس پر ایمان رکھتے ہوئے عمل شروع کرلیتا ہے۔الحمد للہ ہم اہل ِ حدیث کہلاتے ہوئے کسی حدیثِ صحیح کو ردّ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔یہ حدیث سنداً بالکل صحیح ہے اور اس بات کی صریح دلیل ہے کہ اگر نماز میں کوئی مسئلہ پیش آجائے جس کی کسی کو اطلاع دینی ضروری ہو جیسے امام بھول جائے تو مرد سُبْحَانَ اللّٰہ کہے اور عورت اپنی ہتھیلی دوسرے ہاتھ کی پُشت پر مارے تاکہ امام کو اطلاع ہوجائے کہ مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی۔ اللہ کے فضل اور اسی کی توفیق سے ہم اس پر عمل کرتے ہیں اور تمام اہلِ حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر امام بھول جائے تو مرد اُسے اطلاع دینے کے لیے سُبْحَانَ اللّٰہ کہے اور عورت ہاتھ پر ہاتھ مارے اور یہ بات میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ جہاں عورت اور مرد کے درمیان کسی عبادت میں شریعت نے تفریق کی ہے تو وہاں تفریق کرنا چاہیے،لیکن جہاں تفریق کی کوئی صحیح دلیل شریعت سے ثابت نہ ہو وہاں پر اپنی طرف سے فرق کرنا یا علماء کے قول کو اور ضعیف وموضوع روایات کو بنیاد بنا کرفرق کرنا جائز نہیں ۔پس یہاں پر جو حدیث محترم نے پیش کی ہے یہ سنداً صحیح ہے اور جو مسئلہ اس سے ثابت ہوتا ہے اس پر ہم عمل بھی کرتے ہیں ،لیکن اس سے ارکان وافعالِ نماز میں عورتوں اور مردوں کے درمیان فرق کرنا ثابت نہیں ہوتا جو شریعت نے عام رکھا ہے۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ نماز کی ہیئت اور طریقہ میں مرد وعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں اور یہ تسبیح اور تصفیق تو ایک اضافی چیز ہے،جو نماز کی اصل ہیئت نہیں ہے اور ہمارا زیرِ بحث مسئلہ تو یہ ہے کہ نماز کی اصل شکل وصورت اورہیئت وکیفیّت میں عورتوں اور مردوں کے درمیان فرق نہیں اور جہاں فرق صحیح حدیث سے ثابت ہوجائے ہم اس کو ماننے کے لیے تیار ہیں ۔(وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ عَلٰی تَوْفِیْقِہٖ) اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ اندھی وجامد تقلید کی رسی میں جو لوگ جکڑے ہوئے ہیں وہ اتباع ِ سنّت سے محروم رہتے ہیں ،یہی مسئلہ لے لیں کہ نماز کی کیفیّت میں