کتاب: مرد و زن کی نماز میں فرق ؟ - صفحہ 24
رانوں سے چِپکا لے، اور اپنے سرین اوپر نہ اٹھائے ،اور اعضاء کو اس طرح دور نہ رکھے جیسے مرد دوررکھتے ہیں ۔ [1] اہلِ حدیث کاجواب : یہ ایک تابعی کا اثر ہے جو کہ صحیح مرفوع حدیث کے مقابلے میں قابلِ حجّت نہیں ،کیونکہ مرفوع حدیث کو تو وحی(خفی) کہا جاتا ہے لیکن تابعی یا صحابی کے اپنے قول کو وحی نہیں کہا جاسکتا۔ اگرحضرت ابراہیم نخعی کا قول یا عمل حجّت ہے تو پھر ہر تابعی کا قول حجّت ہونا چاہیے۔اور یہ بات آپ لوگ خود بھی نہیں مانتے،پس حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول بھی آپ کے لیے حُجّت نہیں ہوسکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ اس کے خلاف ایک اثر مروی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں : (تَقْعُدُ الْمَرْأَۃُ فِی الصَّلوٰۃِ کَمَا یَقْعُدُ الرَّجُلُ) [2] ’’عورت نماز میں اس طرح بیٹھے جیسے مرد بیٹھتا ہے۔‘‘ اور علّامہ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صفۃ صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں مصّنف سے یہ روایت ان الفاظ سے نقل کی ہے : (تَفْعَلُ الْمَرْأَۃُ فِی الصَّلوٰۃِ کَمَا یَفْعَلُ الرَّجُلُ) [3] ’’ عورت نماز میں اُسی طرح کرے جیسے مرد کرتا ہے۔‘‘ یہ اثر اس بات کی تائید میں ہے کہ مرد عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں اور یہی قول صحیح احادیث کے موافق ہے۔
[1] مصنّف ابن ابی شیبہ ۱؍۲۷۰،السنن الکبریٰ البہقی ۲؍۲۲۲ [2] مصنّف ابن ابی شیبہ ۱؍۳۰۳،مطبوعہ دارالفکر بیروت لبنان [3] صفۃ صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی ص۱۷۰